’کبوتر کے پاس میرا نمبر ہے، بھارتی فوج تصدیق کر سکتی ہے‘

نام گولڈن مادی،عمر ایک سال، رنگ سفید اور کالا مگر جسم پر پیازی رنگ بھی رنگا گیا ہے، پاؤں میں ایک ٹیگ جس پر کچھ ہندسے درج ہیں، جرم سرحد پار ’جاسوسی‘۔

حبیب اللہ کہتے ہیں کہ کبوتر باز اپنے کبوتروں کے پنجےمیں اپنے فون نمبر کا ٹیگ پہناتے ہیں(سکرین گریب)

نام گولڈن مادی،عمر ایک سال، رنگ سفید اور کالا مگر جسم پر پیازی رنگ بھی رنگا گیا ہے، پاؤں میں ایک ٹیگ جس پر کچھ ہندسے درج ہیں، جرم سرحد پار ’جاسوسی‘۔

یہ ذکر ہے اس کبوتر کا جس سے ’ڈر‘ کر بھارتی میڈیا پیر سے شور مچا رہا ہے۔ ان کے مطابق گولڈن مادی ایک جاسوس کبوتر ہے جسے پاکستان سے بھارت روانہ کیا گیا جاسوسی کے لیے۔

بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی نے خبر چلائی کہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے ایک پاکستانی ’جاسوس‘ کبوتر پکڑ کر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ مگر بھارت کی اس خبر کی تردید گولڈن مادی کے مالک نے منگل کے روز کر دی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے 42 سالہ حبیب اللہ جو نارووال کے سرحدی گاؤں بگا کے رہائشی ہیں نے بتایا کہ عید کے روز انہوں نے اس کبوتر جس کا نام انہوں نے گولڈن مادی رکھا ہے، کے ساتھ دیگر کبوتر بھی اڑائے تھے جن میں سے گولڈن مادی واپس نہیں آئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں ان کے دوستوں نے ٹی وی پر خبر دیکھ کر فون پر بتایا کہ ان کا کبوتر بھارتی سکیورٹی فورس کی حراست میں ہے۔

حبیب اللہ  نے بتایا کہ ’جمعرات سے تحصیل شکر گڑھ میں کبوتروں کے مقابلے ہونے والے ہیں جس کے لیے سب کبوتر باز گذشتہ ایک ماہ سے اپنے اپنے کبوتروں کو اڑنے کی تربیت دے رہے تھے۔ اس مقابلے میں جس کبوتر کے زیادہ دیر تک اڑنے کی صلاحیت ہو گی وہ انعام کا حق دار ہوتا ہے۔‘

’یہ کبوتر گولڈن نسل کہلاتی ہے اور 12 سے 13 گھنٹے مسلسل اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی مقابلے کی تربیت کے سلسلے میں میں نے عید کے دن دس سے 12 کبوتر اڑائے جس میں سے یہ گولڈن مادی واپس نہیں آئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کبوتر باز اپنے کبوتروں کے بنجے میں اپنے فون نمبر کا ٹیگ پہناتے ہیں تاکہ اگر کوئی کبوتر گم ہو جائے تو جسے بھی ملے وہ فون کر کے کبوتر واپس کر سکے۔

’اس کبوتر کے پنجے میں بھی جو رنگ ہے اس پر میرا فون نمبر لکھا ہے، بھارتی فوج اس پر کال کر کے تصدیق کر سکتی ہے۔‘

حبیب اللہ کہتے ہیں کہ وہ 30 برس سے کبوتر پال رہے ہیں اور یہ ان کا شوق ہے۔ ان کے پاس اڑھائی سو کے قریب کبوتر ہیں۔ 

انہیں بھارت اور پاکستان کے تنازعہ کے حوالے سے کوئی علم نہیں انہیں تو بس اپنی کبوتری واپس چاہیے تاکہ وہ جمعرات کو ہونے والے ٹورنامنٹ میں حصہ لے سکیں۔

حبیب اللہ نے یہ بھی بتایا کہ اب تک بھارت یا پاکستان کی فوج نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بھارتی حکومت اور میڈیا میری کبوتری اور پاکستانی عوام سے معافی مانگے۔ ہم نے تو آپ کا پائلٹ واپس بھیج دیا تھا آپ ہمارا کبوتر پورے عزت و احترام کے ساتھ واپس کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کی جانب سے کبوتروں پر جاسوسی کا الزام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل جون 2018 میں بھی بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستانی ’جاسوس‘ کبوتر پکڑا اور اس دعوی کا سماجی رابطوں کی سائٹس پر کافی مذاق اڑایا گیا۔

اس بار بھی مبینہ پاکستانی جاسوس کبوتر کو پکڑنے کی خبر سماجی رابطوں پر ایک مذاق کے طور پر لی جا رہی ہے اور بھارتی میڈیا اور حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایک صارف نے لکھا ’بھارتی فوج ابھی نندن اور کلبھوشن کا بدلہ کبوتر کو حراست میں لے کر لے رہی ہے‘ تو کسی نے کہا کہ ’ہم نے ابھی نندن کو چائے پلائی تھی اور آپ نے ہمارے کبوتر کو پانی بھی نہیں پوچھا۔‘

بھارتی روزنامہ میلاپ کے ایڈیٹر اور فارن پالیسی نیو ورلڈ آرڈر کے شریک بانی رشی سوری نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ جاسوس کبوتر کے حوالے سے میرے ساتھی صحافی خاص طور پر نیوز چینلز شاید رائی کا پہاڑ بنا رہے ہیں جبکہ سرحد کے دوسری جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کبوتر کے پاس سے جو کوڈ ملا ہے وہ صرف اس کے مالک کا فون نمبر ہے۔

’میں امید کرتا ہوں کہ اس سارے معاملہ کی تحقیق اور تصدیق دونوں جانب سے جلد از جلد کی جائے۔‘

 رشی کہتے ہیں کہ سی آئی اے کے منکشف ہونے والی دستاویزات کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں کولڈ وار کے دوران کبوتروں کا استعمال جاسوسی کے لیے ہوا کرتا تھا، شاید اسی لیے بھارتی سکیورٹی فورسز اس معاملے کو اتنی سنجیدگی  سے لے رہی ہیں۔

’پاکستان اور بھارت کو اس وقت کرونا کی وبا اور ٹڈی دل کے حملوں کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے نہ کہ اس طرح کے ایشوز پر۔‘

تجزیہ کار حسن عسکری کے خیال میں بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کی سوچ یہی ہے کہ پاکستان بھارت تنازعہ  ہائی لائٹ ہوتا رہے تاکہ بین الاقوامی توجہ کشمیر کے اندرونی حالات پر نہ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہندوستان کشمیر کے اندر کچھ تبدیلیاں کر رہا ہے  اور یہ کہ کشمیر کے اندر بھارت کے خلاف ایک ردعمل موجود ہے، انہیں معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش اس طرح سے کی جاتی ہے۔‘

’یہ ایک ایسی پالیسی ہے کہ جو کہ نئی نہیں ہے اس کے طریقے بدل جاتے ہیں اور حالیہ واقعہ بھی اسی  سیریز کا حصہ ہے جس کے تحت لائن آف کنٹرول پر واقعات ہوتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف پراپیگینڈا ہوتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی باتیں پاکستان کے خلاف ہندوستان کہتا ہے۔‘

حسن عسکری کہتے ہیں کہ یہ ایک مضائقہ خیز بات ہے کہ کبوتر کے ذریعے جاسوسی کی جائے گی۔ ’آج کل کے دور میں جب سیٹلائٹ ٹیکنالوجی موجود ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اب کبوتر وہاں جا کر کیا خبریں واپس لے کر آئے گا، غالبا پرانی کہانیوں اور افسانوں میں کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی کی جاتی تھی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان