وائرس کے خلاف جنگ کی قیادت کرتا امریکہ شکست سے دو چار

ستر سال پہلے امریکہ نے پولیو وائرس کے خلاف ویکیسن بنانے کی جدوجہد کی قیادت کی تھی۔ اب اس کوشش کا موازنہ موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے بھونڈے اور افراتفری پر مبنی اقدامات کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ  کے دور میں امریکہ میں پولیو وائرس نے سر اٹھایا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں  یہاں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ (فائل تصاویر: اے ایف پی)

ستر سال پہلے جب دنیا میں پولیو کا مرض سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا تھا اس وقت امریکہ نے ویکیسن بنانے کی جدوجہد کی قیادت کی تھی۔ اب اس کوشش کا موازنہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے بھونڈے اور افراتفری پر مبنی اقدامات کے ساتھ کریں۔ اس وبا سے امریکہ میں ہونے والی ہلاکتیں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔

دو وبائیں جنہوں نےگذشتہ 100 سال میں امریکہ کو سب سے زیادہ خوف زدہ کیا ہے ان میں ایک آج کی کووڈ 19 اور دوسری پولیو کی وہ تباہ کن وبا ہے جس نے 40 برس تک ملک میں تباہی پھیلائے رکھی۔ یہ عرصہ 1916 میں نیویارک میں پولیو کی وبا اور 1955 کے بعد تک کا ہے جب سلک (Salk) نامی ویکسین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔

پولیو کے وائرس نے انتہائی خوف ناک ماحول پیدا کر رکھا تھا کیونکہ یہ سنگین وبائی شکل میں تھا جس نے بچوں کو معذور کر دیا یا کئی واقعات میں ان کی جان لے لی تھی اور اس وائرس کو روکنا ناممکن دکھائی دینے لگا تھا۔

بڑے پیمانے پر ویکسین کے استعمال سے پہلے پولیو کا یہ وائرس طوفانی شکل میں ظاہر ہوا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کی شدت اور زیادہ مہلک ہوتی گئی۔

اکثر موجودہ وبا کا موازنہ 1918-19 کے ہسپانوی فلُو سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ جان سے گئے تھے لیکن فلُو کا دورانیہ مختصر تھا۔ کئی طرح سے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پولیو سے بہت ملتی جلتی ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں بہت سےلوگ وائرس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن کم لوگ ہی ہلاک یا معذور ہوئے ہیں۔

بیسویں صدی میں پولیو کی مؤثر ویکسین کی ایجاد امریکہ کی عظیم ترین سائنسی کامیابیوں سے میں ایک تھی جس کا موازنہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے سےکیا جا سکتا ہے اور یہ کامیابی انسانیت کے لیے کہیں زیادہ فائدہ مند تھی۔

لیکن یہ کامیابی آسانی سے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے بہت سے غلطیاں بھی ہوئیں۔ پولیو وائرس کے فعال رہنے کا وقت اور اس دوران اس کے حملہ آور ہونے کا طریقہ اس اندازے سے بہت مختلف اور زیادہ پیچیدہ ثابت ہوا تھا جو ابتدائی طور پر لگایا گیا تھا۔

جونس سلک کو ان کی تحقیقات، جس پر کئی سال بعد البرٹ سبین نے کام کیا تھا، اور اس مرض کو ختم کرنے کے لیے مختلف ویکسینز بنانے پر زبردست داد ملی لیکن ان ویکسینوں کی حتمی کامیابی کا انحصار دوسرے سائنس دانوں اور ان لیبارٹریوں کے کام پر منحصر تھا جنہوں نے مہلک وائرس کو سمجھنے میں کردار ادا کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاست دانوں اور سائنس دانوں نے مل کر پولیو کو شکست دی۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے اس بیماری کے بارے میں عوامی آگاہی اور اس کے علاج کے سلسلے میں سائنسی تحقیق کی بھر پور حمایت کی۔ وہ خود بھی 1921 میں پولیو سے متاثر ہوچکے تھے، جب ان کی عمر 39 سال تھی اور پھر پوری زندگی وہ وہیل چیئر کے پابند بن کر رہ گئے تھے۔ تاہم، انہوں نے اپنے ووٹرز سے اپنی معذوری کو چھپانے کی پوری کوشش بھی کی تھی۔

صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے دہائیوں پر محیط چلائی جانے والی پولیو آگاہی مہم کا اہتمام کیا اور ویکسین کی تحقیق و دریافت کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز بھی اکٹھے کیے۔

 1938 میں انہوں نے نیشنل فاؤنڈیشن انفنٹائل فالج ( پولیو کا دوسرا نام) ادارہ قائم کیا جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ وائرس بالغ لوگوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہی وہ تنظیم تھی جس نے بعد میں تمام امریکیوں کو ایک پیسہ یا 10 سینٹ کی شراکت کی اپیل کی اور ملک میں 'مارچ آف ڈائمز' نامی مہم کا آغاز کیا۔

سلک اور ان کی ٹیم نے 1953 میں ایک محفوظ غیر فعال پولیو ویکسین تیار کرلی، جس کا کامیاب تجربہ 1955 میں کیا گیا تھا۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی 10 ویں برسی کے موقع پر جب 12 اپریل کو ٹیسٹوں کے کامیباب نتائج کا اعلان کیا گیا تو چرچ کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور پورے ملک میں جشن منایا گیا۔اس کے اگلے سال ہی پولیو کی وبا کو روکنے کے لیے تیار کردہ ویکسین کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ شکاگو جہاں وائرس کا پھیلاؤ سب سے زیادہ تھا وہاں طبی ٹیموں نے خالی دکانوں اور خالی جگہوں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو ویکسین کے ٹیکے لگائے۔ اس طرح دو چار سالوں میں امریکہ میں پولیو کے کیسز کی تعداد میں 85 سے 90 فیصد تک کمی نظر آئی۔

19 ویں صدی کے اواخر میں پولیو انتہائی خطرناک حد تک بین الاقوامی وبائی شکل اختیار کرچکا تھا اور سویڈن اور آسٹریلیا جیسے دور دراز کے ممالک بھی اس سے بری طرح متاثر ہوچکے تھے۔اس بیماری کا رد عمل بھی بین الاقوامی تھا۔ امریکہ نے 1929 میں اس مرض میں مبتلا ہونے والوں، جنہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، کے علاج کے لیے آئرن لنگز بھی ایجاد کیے تاکہ مریضوں کو زندہ رکھا جاسکے۔ لیکن دنیا کا پہلا آئی سی یو، جوکہ آج کرونا وائرس کے مریضوں کی جان بچانے میں سب سے زیادہ کارآمد نظر آرہا ہے۔ اسے 1952 میں پولیو کی وبا کے دوران ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں تیار کیا گیا تھا۔ ابتدا ہی سے امریکہ تحقیق میں سب سے آگے رہا، جبکہ دنیا میں سرد جنگ جیسی صورت حال کے باوجود، صدر آئزن ہاور نے عہد کیا کہ امریکہ، امریکی سائنسدانوں کے ذریعہ دریافت کی جانے والی ویکسین کو باقی دنیا تک پہنچائے گا۔

جب سلک کے حریف، البرٹ سبین کی تیار کردہ 'فعال' ویکسین کا بڑے پیمانے پر تجربہ کیا گیا تو یہ ٹیسٹ سوویت یونین میں ہوئے۔ سبین ویکسین کا یہ فائدہ تھا کہ اسے منہ کے راستے چینی کے ایک چھوٹے مرکب میں رکھ کر لیا جاسکتا تھا۔یہ ویکسین بیک وقت تین طرح کے پولیو وائرس سے نمٹنے میں مدد دیتی تھی۔1962 تک اس نے سلک کی ویکسین کی جگہ لے لی تھی کیونکہ اس دوائی کا استعمال نہ صرف آسان تھا بلکہ سستا بھی تھا۔ سلک اور سبین دونوں نے اپنی دریافتوں کو پیٹنٹ کرنے یعنی لائسنس لینے کے بعد حاصل ہونے والی رقم لینے سے انکار کردیا تھا۔

آج پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان، پاکستان اور نائیجیریا میں ہی یہ وائرس بچا ہے جس کی وجہ بنیاد پرستوں کے نظریات ہیں جو پولیو کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی مہم کی مخالفت کرتے ہیں۔

آج اگر 20 ویں صدی میں پھیلنے والے پولیو کے خلاف امریکہ کی زیرقیادت مہم کا موازنہ، 21 ویں صدی میں کووڈ 19 کے وبائی امراض کے رد عمل کے ساتھ کیا جائے تو پہلے کیس میں تو امریکی قیادت کی حکمت عملی واضح تھی جبکہ دوسرے کیس میں امریکہ میں اموات کی شرح تمام دنیا سے کئی گنا زیادہ نظر آرہی ہے۔ یہ لکھتے وقت تقربیاً 84 ہزار امریکی کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جوکہ ایشیا اور یورپ میں مرنے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ سیاسی اور طبی لحاظ سے امریکہ اس وبا کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

کرونا وائرس کے خلاف اقدامات میں ناکامی پر وائٹ ہاؤس کے باہر صدر ٹرمپ کے خلاف لگایا گیا ایک بینر (تصویر: اے ایف پی)


صدر ٹرمپ کے کووڈ 19 سے نمٹنے کی حکمت عملی کا اگر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے پولیو سے نمٹنے کے اقدامات سے موازنہ کریں تو پہلے تو ٹرمپ کی جانب سے اسے صرف معمولی زکام کہہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف سخت اقدامات لینے والے امریکی سیاستدانوں کی مذمت بھی کی گئی اور جب ویکسین کی بات آئی تو انہوں نے ملیریا سے بچنے والی ایک گولی استعمال کرنے کو کہا جوکہ کرونا وائرس کے خلاف بیکار تھی۔ اسی طرح ان کی جانب سے ایک جراثیم کش مائع کے استعمال کا مشورہ بھی دیا گیا۔

عالمی خطرے کے خلاف بین الاقوامی تعاون کی بجائے صدر ٹرمپ نے ایک سازشی تھیوری کی حمایت کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 وائرس چین کے شہر ووہان کی ایک تجربہ گاہ سے آیا ہے، حالانکہ امریکہ کی اپنی خفیہ ایجنسیوں اور سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

وبائی امراض سے خوفزدہ لوگ اکثر بیماری کی وجہ کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں اور ایسے حالات میں دوسرے ممالک قربانی کا بکرا بنائے جاتے ہیں۔ نیو یارک میں 1916 میں جب پولیو کی وبا آئی تو اس کے پھیلاؤ کا شک نیپلس سے نئے آنے والے تارکین وطن پر کیا گیا، اسی طرح شک کی بیناد پر ہزاروں کی تعداد میں کتے اور بلیوں کا شکار کر کے انہیں ہلاک کیا گیا۔

زینوفوبیا یعنی غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والوں کے لیے یہ بہت مناسب وقت ہوتا ہے جب وہ کسی کے خلاف وبا کے نام پر نفرت کو استعمال کر سکتے ہیں۔ قومی ریپبلکن سینیٹری کمیٹی نے اپریل میں ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس 'چینی ہٹ اینڈ رن' یعنی حملہ تھا جبکہ امیدواروں کو ان سلوگنز کے ساتھ جارحانہ کارروائی کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا کہ 'چین پر سفری پابندی کے علاوہ ٹرمپ کا دفاع نہ کریں- چین پر تنقید کریں۔'

میں حکومتوں اور طبی ماہرین کی وبائی امراض سے نمٹنے کی حکمت عملی میں دلچسپی لیتا رہا ہوں کیونکہ میں خود چھ سال کی عمر میں 1956 میں آئرلینڈ کے شہر کارک میں پولیو کا شکار ہو چکا ہوں۔ ویکسین آنے سے قبل یہ پولیو وائرس کی آخری لہر تھی جس میں مفلوج ہونے والوں کی اکثریت بچوں کی تھی۔ حالانکہ بالغ بھی اس کے خلاف مدافعت نہیں رکھتے تھے مگر اس وقت مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی۔ اس کا شکار میرے بہنوئی مائیکل فلینڈرز بھی ہوئے جو ایک اداکار اور 'اے ڈراپ آف ہیٹ' جیسے ریکارڈ فروخت کرنے والے گلوکار تھے۔ وہ 1939 میں یونیورسٹی میں تھے جب انہیں نیوی میں طلب کیا گیا اور 1943 میں وہ پولیو کا شکار ہوئے جس نے انہیں مستقل طور پر وہیل چیئر تک محدود کردیا۔

پولیو کا شکار ہونا میری بد قسمتی تھی تب جب دنیا میں سلک ویکسین دریافت ہوچکی تھی، مگر یورپ میں اس کی تقسیم بعد میں ہوئی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس ترقی یافتہ دنیا میں وہ آخری انسان تھا جو وائرس سے معذور ہوا۔ جس نے پہلے ہی چیچک، ہیضہ اور تپ دق کے خلاف ویکسین تیار کر رکھی تھی۔ پچھلے چھ مہینوں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ اس وبا کے خاتمے کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی پر امید نظر آئے۔ بےشک یہ عالمگیر دنیا بہت سے مہلک وائرس اور بیکٹریا کو ختم کرنے اور قابو پانے میں کامیاب رہی لیکن آج بھی نئے آنے والے وائرس اور بیکٹریا انتہائی خوفناک حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

پولیو کی مثال ایک ایسے وائرس کی ہے جس نے جدت کو اپنے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا۔ اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے جو لوگوں کو مفلوج کرنے کا سبب بنتی رہی، مگر صرف 19 ویں صدی میں یہ وائرس وبا کی شکل اختیار کر گیا اور حقیقتاً پولیو کی وبا زیادہ تر بڑے شہروں کی مصروف جگہوں پر ہی پھیلی۔ بری طرح متاثر ہونے والوں میں نیویارک، شکاگو، میلبورن، کوپن ہیگن، سٹاک ہوم کے جدید اضلاع شامل تھے۔

بعض اوقات پولیو کو 'درمیانے طبقے کی بیماری' بھی کہا جاتا تھا کیونکہ کچی آبادیوں اور غریب علاقوں میں موجود بچوں کو شاذ و نادر ہی انفکشن ہوا۔ اس کی وجہ انہیں ماؤں سے ملنے والی اینٹی باڈیز یعنی جسم میں بیماریوں کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت تھی۔ لیکن ایسی جگہیں جہاں پر صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی کے موثر انتظامات موجود تھے وہاں پر پر بچوں کو بیماری لگنے کا خطرہ زیادہ تھا۔

کارک شہر بھی یقینی طور پر اسی وجہ سے متاثر ہوا۔ کاؤنٹی کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر جیرالڈ میکارتھی کے مطابق: 'معیار زندگی جتنا زیادہ اچھا ہوتا ہے، اتنا ہی بیماری لگنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔' عام طور پر بہت زیادہ صاف ستھرے ماحول میں پلنے والے بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ریڈ کراس کی ایک نرس موریین او سلیوان جو ایمبولینس چلاتی ہیں، نے مجھے بتایا کہ '80 فیصد متاثرین بچوں کا تعلق امیر یا مستحکم گھرانوں سے ہے۔'

میں اور میرا بھائی اینڈریو پولیو کا نشانہ شاید کسی اور وجہ سے بنے ہوں۔ ہمارے والدین نے سوچا کہ ہم اس وبا سے محفوظ رہیں گے کیونکہ ہم آئرلینڈ کے ایک گاؤں میں الگ تھلگ رہتے تھے۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ ہم اس مہلک وائرس بچ نکلے ۔ہم مکمل طور پر الگ تھلگ نہیں تھے کیونکہ ہمارے والد کارک اور لندن شہر کے درمیان سفر کرتے رہتے تھے۔

الگ تھلگ رہنے والے افراد اور جزیرے بھی پولیو وائرس کا شکار رہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ وبا جنوبی بحر اوقیانوس کے علاقے سینٹ ہیلینا میں پھیلی اور پھر آسٹریلیا کا جزیرہ تسمانیہ بھی اس کا نشانہ بنا۔

پولیو وائرس اور کرونا وائرس سے نشانہ بننے والے افراد کی نوعیت مختلف ہے۔ پولیو کے معاملے میں سب سے زیادہ خطرہ نوجوانوں کو تھا۔ جبکہ کووڈ 19 اس کے برعکس ہے۔ اس کا نشانہ بوڑھے، بیمار اور غریب لوگ ہیں۔دونوں وائرس میں جو چیزیں مشترکہ ہے۔ وہ یہ ہیں کہ یہ بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور کچھ لوگوں میں علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے، وہ بغیر اس علم کے انہیں وائرس لگ چکا ہے، اسے پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔

ماضی میں اور موجودہ دور کے ڈاکٹروں نے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ لوگوں پر اس متعدی بیماریوں کا شدید گہرا خوف ہے اور وہ اس سے دور بھی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو یہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ انفیکشن سے بچنا ناممکن ہے یا نشانہ بننے والے کی عمر پر انحصار کرتا ہے کہ اسے کتنا تقصان پہنچے گا۔ اگر لوگ خطرہ محسوس کریں گے تو وہ خود ہی اپنے آپ کو قرنطینہ کر لیں گے۔ برطانیہ میں رہنے والے بہت سے لوگوں نے حکومت کے اعلان سے پہلے ہی، مارچ کے مہینے میں خود کو الگ تھلگ کر لیا تھا۔

رائے شماری پولز سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ حکومتی ہدایات سے بڑھ کر لوگوں میں کرونا وائرس پھیلنے کا خوف ہے۔سو سال پہلے بھی نیویارک کے لوگوں میں یہی خوف اور خدشات تھے جس کی وجہ سے بہت سے رہائشیوں نے اپنے علاقوں کو سیل کر دیا تھا اور باہر آنے جانے والی ریل گاڑیوں پر مسلح محافظوں کو تعینات کر دیا گیا تاکہ ایک مقرہ عمر تک کے بچے ہی سفر کر سکیں۔

امریکہ میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں (تصویر: اے ایف پی)


امریکہ کی جانب سے چین پر سفری پابندی جنوری میں لگائی گئی۔ اس طرح ٹرمپ نے اسی انسانی جبلت کا مظاہرہ کیا جس کے تحت ایک خوف زدہ آبادی وائرس کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسے کہ گویا یہ ایک انسانی دشمن ہو۔

اس سال جب یہ وبا آئی تو میں تقریباً آدھی صدی پہلے ہی سے پولیو جیسے وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت سے متوازی تجربات سے گزر چکا تھا۔ پولیو اور کووڈ 19 کی علامات مختلف ہیں مگر ان سے پیدا ہونے والا ڈر ایک ہی ہے۔ دونوں وائرس میں مشترکہ چیز یہ ہے کہ دونوں سے متاثر ہونے کے بعد سانس لینے میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جان بچانے کے لیے وینٹی لیٹر 'آئرن لنگز' کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاسکتا ہے جسے امریکہ نے 1929 میں پولیو زدگان کو بچانے کے لیے ایجاد کیا تھا، جنہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ اسی طرح آئی سی یو یونٹ بھی ہیں جوکہ اس وقت پولیو متاثرین کے علاج کے لیے کوپن ہیگن میں بنائے گے تھے۔ اسی طرح آج بار بار ہاتھ دھونے کے عمل کو اس سے بچاؤ کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔

آج کرونا وائرس کی ویکسین جلد سے جلد تیار کرنے کا دباؤ ہے، لیکن اگر ماضی کو دیکھا جائے تو اس کی مثال کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ صدر روزویلٹ اور سلک کو ویکسن تیار کرنے میں ایک لمبا عرصہ لگا۔ جب 1908 ویانا میں پولیو وائرس وبا کی پہلی بار نشاندہی کی گی تو تب بھی یہی خیال کیا جارہا تھا کہ جلد ہی اس کی موثر ویکسین دریافت کر لی جائے گی۔اس کے باوجود 1930 میں سائنسدان اس کی تین قسمیں جاننے میں کامیاب ہوئے اور 1935 میں بنائی گی ویکسین بھی ناکام ثابت ہوئی۔

سلک اور سبین بالآخر پولیو کے خاتمے میں کامیاب ہوگئے، لیکن سائنس دانوں کو عوام کی رائے ، ان کی مکمل حمایت حاصل کرنے اور واشنگٹن کے ذریعے ملنے والی حمایت کے باوجود اسے تیار کرنے میں نصف صدی لگ گئی۔ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ بے ربط اور انتشار کا شکار حکومت آج اسی کامیابی کو دہرانےکی کوشش کر رہی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر