پشاور کے فنکاروں کا نام تو سنا ہوگا؟

ایک فنکار نے کہا کہ کوئی ہمارے حکمرانوں کو جاکر یہ بتائے کہ آپ کے صوبے میں بہت سے فنکار گھرانوں نے اس رمضان میں پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو ہمیں کچھ کام ہی دے دے تاکہ ہم اپنا چولہا جلا سکیں۔

ایک پشتو فلم کا منظر (پبلسٹی فوٹو)

کچھ دن قبل میں نے پشاور کے ایک آرٹسٹ کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ کچھ آٹا اور چینی کی امدادی بوری لے کر رونے لگتے ہیں اور امداد دینے والے سے کہتے ہیں کہ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اور میرے دیگر فنکار ساتھیوں کو اس مشکل وقت میں یاد کیا۔

اس فنکار کو میں نے بچپن میں ایک پشتو ڈرامے میں کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔اس ڈرامے میں یہ ایک گاؤں کے خان کا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی شخصیت بہت ہی بارعب تھی۔ ڈرامے میں یہ خان اپنے بیٹے کو جائیداد سے اس لیے عاق کرتا ہے کیونکہ اس نے اپنی مرضی کی شادی کی تھی۔خان اپنے بیٹے کو گاؤں سے بھی نکال دیتا ہے۔

ڈرامے کے اس خان کے ایک حکم سے اس کے نوکر کیا کچھ نہیں کرتے،کسی پر زمین تنگ کرتے ہیں توکسی سے آسمان چھین لیتے ہیں۔

بہر حال اس ڈرامے کا قصہ تو بہت لمبا ہے لیکن کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ڈراموں کے یہ فرضی کردار کبھی کبھی انسان کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔اس لیے جب مذکورہ فنکار کی ایک ویڈیو جب میں نے سوشل میڈیا پر دیکھی جس میں وہ صوبائی حکومت سے گلہ کرتے ہیں کہ جناب آپ کے صوبے کے فنکار بھوک سے مر رہے ہیں اور آپ کو خبر بھی نہیں۔ تو میں یہ سوچنے لگی کہ شاید میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں جو کبھی کبھی ڈراموں کو حقیقت مان لیتے ہیں اور کبھی حقیقت ایک ڈرامہ بن جاتا ہے۔

یہ اس لیے کہا کہ بعض اوقات ہم سمجتھے ہیں کہ ان ڈراموں کے یہ اتنے بارعب اور امیر کردار کیسے اتنے بے بس اور کمزور ہو سکتے ہیں؟ ڈراموں کا وہ خان جس کا کردار اتنے سال میرے ذہن پر نقش رہا، حقیقت میں ایک تھیلے آٹے کے لیے رو پڑتا ہے۔ ہم توشاید سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ حقیقت میں بھی ایسے ہی ہوں گے، ہم مگر نادان لوگ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے فلم سٹار امان سے بات کی کہ حکومت نے آپ کے لیے اس موجودہ صورت حال میں کچھ کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ ابھی تک تو انتظار ہی کر رہے ہیں، شاید ہم فنکار حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں- ایک دوسرے فنکار نے کہا کہ کوئی ہمارے حکمرانوں کو جاکر یہ بتائے کہ آپ کےصوبے میں بہت سے فنکار گھرانوں نے اس رمضان میں پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو ہمیں کچھ کام ہی دے دے تاکہ ہم اپنا چولہا جلا سکیں۔

ہمارے معاشرے میں فنکار کو فن کی اس دنیا میں آنے کے لیے بہت کٹھن سفر طے کرنا پڑتا ہے، جو انہوں نے کیا مگر کیا ان کو وہ عزت ملی جس کے وہ حقدار ہیں؟

پشاور کے وہ فنکار سب کو یاد ہیں، جو یہاں سے بھارت کوچ کر گئے اور بالی وڈ کیا پوری فلمی دنیا میں نام کمایا، ایک لمبے عرصے تک راج کیا۔ کپور خاندان نے ہندی سینما پر اور اکیلے دلیپ کمار نے کئی سالوں تک بالی وڈ پر بادشاہت کی۔

پر وہ جو پشاور سے بندھے رہے، آج کام کے لیے رو رہے ہیں۔ اس سال عید پر ایک پشتو فلم ریلیز ہوئی اور وہ بھی کرونا وائرس کی وجہ سے نہ دیکھی جاسکی۔ فلم سٹارز کے مطابق پشاور میں اب نہ وہ فلم رہی، نہ وہ سینما اور نہ ہی تماشائی۔

ایک اور فنکار نے بتایا کہ بہت سے لوگ انٹرویو کے لیے آتے ہیں، ہم بھی شوق سے بات کرتے ہیں کہ چلو ہمارا نہ سہی کسی کا تو بھلا ہو۔ ان کی یہ باتیں سن کر ميں بھی کچھ وقت کے لیے یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی  کہ پشتو کے عظیم ‎شاعر غنی خان کی یہ بات گویا اب سرکاری طور پر تسلیم کر لی گئی کہ ہمارے معاشرے ميں فن کو تو پسند کیا جاتا ہے لیکن فنکار کو نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ