سستا پیٹرول غائب کہاں ہوگیا؟

گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد سے کئی شہروں میں عوام کو پیٹرول کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر پیٹرول پمپس گاڑی مالکان کو سپریم پیٹرول کی بجائے زیادہ مہنگا ہائی اوکٹین فروخت کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں جہاں ایک طرف کرونا (کورونا) وائرس اور اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں نرمی اور سختی زیر بحث ہیں، وہیں پیٹرولیم مصنوعات کا اچانک سے غائب ہو جانا بھی آج کل بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد سے کئی شہروں میں پیٹرول دستیاب ہی نہیں ہے۔

اکثر شہروں میں پیٹرول پمپ تو کھلے ہیں، تاہم وہاں آنے والی گاڑیوں کو پیٹرول فروخت نہیں کیا جا رہا۔

عام طور پر اسلام آباد سے پشاور کا راستہ دو سے ڈھائی گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے مگر حاجی محمد ابراہیم نے یہی سفر چار گھنٹے میں طے کیا۔

حاجی محمد ابراہیم بتاتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ وقت پیٹرول تلاش کرنے میں صرف ہوا مگرجب ملا بھی تو شہر سے باہر اور لمبی قطار میں لگ کے طویل انتظار کے بعد۔

حاجی ابراہیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صرف پی ایس او کے پمپوں پر پیٹرول مل رہا ہے، باقی سب انکار کر رہے ہیں۔ جہاں مل بھی رہا ہے وہاں رش بہت زیادہ ہے۔‘

پشاور کے ایک رہائشی محمد عمر خان بتاتے ہیں کہ ’میں تین پیٹرول پمپوں پر گیا۔ ہر جگہ پیٹرول ندارد۔ بڑی مشکل سے شہر کے باہر رِنگ روڈ کے ایک پیٹرول پمپ سے گاڑی کا ٹینک بھروا سکا۔‘

ایسی اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر پیٹرول پمپس گاڑی مالکان کو سپریم پیٹرول کی بجائے زیادہ مہنگا ہائی اوکٹین فروخت کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ بعض پیٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل مالکان پر پیٹرول زیادہ قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

لاہور کے رہائشی محمد امتیاز کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی موٹر سائیکل میں پیٹرول بھروانے پیٹرول پمپ پہنچا تو انہوں نے مجھے ہائی اوکٹین خریدنے کا مشورہ دیا۔ موٹر سائیکل میں اتنا مہنگا پیٹرول ڈالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک میں گیس اور تیل سے متعلق معاملات کی ذمہ دار حکومتی ایجنسی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تیل اور اس کی مصنوعات فراہم کرنے والی کمپنیوں (آئل مارکیٹنگ کمپنیز یعنی او ایم سیز) اور ان کے ڈیلرز پر پیٹرول کی عدم دستیابی کا الزام لگایا ہے۔

جمعے کی شام اوگرا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ او ایم سیز اور ان کے ڈیلر زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں عوام تک پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ نہیں پہنچا رہے۔

اوگرا کے مطابق ملک میں بالترتیب دو لاکھ 72 ہزار پانچ سو اور تین لاکھ 74 ہزار ملین ٹن پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل موجود ہیں، جو آئندہ 12 اور 17 روز کی ملکی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ صرف شیل اور ٹوٹل پارکو کے سٹاکس کم ہیں، تاہم دونوں او ایم سیز کی ترسیلات 8 سے 10 جون تک موصول ہو جائیں گی۔

دوسری جانب اوگرا کے ایک ذمہ دار افسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جن او ایم سیز یا پیٹرول پمپس کے پاس پہلے سے پیٹرول موجود تھا، انہوں نے قیمتوں میں کمی کے بعد فروخت روک دی ہے۔

’ظاہر ہے انہیں اس میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن ایسا کرنا غیر قانونی ہے، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اوگرا کے مذکورہ افسر نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں ایسے غیر قانونی اقدامات کی روک تھام کے لیے طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ ’جو قوانین اور ضابطہ کار موجود ہیں، ان پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو پاتا۔‘

اوگرا نے بدھ کے روز کم از کم تین او ایم سیز کو شوکاز نوٹس کے ذریعے پیٹرول اور اس کی مصنوعات کی ترسیل روکنے اور عدم دستیابی سے متعلق جواب طلبی کی تھی۔

جس پر مذکورہ او ایم سیز نے اوگرا کو دیے گئے جوابات میں ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کمی کا ذمہ دار وفاقی وزارت پیٹرولیم کو ٹھہراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مارچ میں بغیر منصوبہ بندی کے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات بند کی گئیں اور اپریل میں درخواستوں کے باوجود بھی درآمد نہیں کی گئی، جبکہ پیٹرول کی سمگلنگ رکنے سے بھی ملک کے اندر طلب میں اضافہ ہوا۔

او ایم سیز کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کمی واقع ہوئی اور عام عوام کو پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ نہیں پہنچ پا رہا۔

اوگرا کے نوٹس کے جواب میں او ایم سیز نے مزید کہا کہ ریفائنریز مکمل گنجائش پر نہیں اس لیے مطلوبہ سپلائی نہیں مل پا رہی۔

یاد رہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران ملک میں اکثر پیٹرول کی قلت کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں گاڑیوں کے مالکان میں زیادہ سے زیادہ پیٹرول حاصل کرنے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔

اسی لیے مئی کے مہینے میں اوگرا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں دو لاکھ پچپن ہزار میٹرک ٹن پیٹرول موجود ہے جبکہ 58 ہزار میٹرک ٹن مزید پیٹرول بحری جہاز کے ذریعے کیماڑی کی بندر درگاہ پر  پہنچ گیا ہے۔

آل پاکستان پیٹرولیم ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عبداللہ غیاث پراچہ نے ایک انٹرویو میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث ملک میں پیٹرول اور اس کی دوسری مصنوعات کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پیٹرول پمپس کی سیل میں 75 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اسی وجہ سے اکثر پیٹرول پمپ مالکان نے پیٹرول کی خریداری کم کر دی تھی۔

مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے اس سلسلے میں ایک انکوائری شروع کر دی ہے، جس کا مقصد معلوم کرنا ہے کہ ملک میں پیٹرول کی موجودہ کمی کسی غیر مسابقتی سرگرمی کا حصہ تو نہیں ہے۔

اس سلسلے میں سی سی پی نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے جو پیٹرول کے سٹاک، ریفائنریز سے جاری ہونے والے پیٹرول کی مقدار، او ایم سیز اور پیٹرول پمپس کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرے گی۔

پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سمیر انجم الحسین نے کہا کہ پیٹرول پمپ مالکان اور ڈیلرز کاروبار کے لیے بیٹھے ہیں۔ پیٹرول چھپانے سے یقیناً انہیں نقصان ہو گا اور ایسا کوئی نہیں چاہتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کم ہیں اور اسی وجہ سے ڈیلرز اور پمپ مالکان کے پاس پیٹرول موجود نہیں ہے۔

سمیر انجم نے کہا کہ اگر کوئی بھی ڈیلر پیٹرول ذخیرہ کر رہا ہے تو یہ بالکل غلط اقدام ہے اور حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ پیٹرول میں کمی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت