پشاور چڑیا گھر میں جانور کیوں مر رہے ہیں؟

سال بھر پہلے ہی کی بات ہے جب پشاور کے نئے چڑیا گھر کے لیے افریقہ سے  زرافہ خرید  کر لائے گئے، جن میں ایک زرافہ منتقلی کے دوران چوٹیں لگنے سے راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ دوسرا چند مہینے قبل جب کہ تیسرا کچھ دن پہلے ہلاک ہوا۔

پشاور میں اربوں روپے کی لاگت سے ایک چڑیا گھر تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح فروری 2018 میں ہوا تھا

افریقہ کے وسیع و عریض میدانوں اور جنگلات میں آزادانہ فطری زندگی گزارنے والے جانور جب کسی شہر کے چڑیا گھروں میں لائے جاتے ہیں تو انسانوں کے لیے تو وہ ’تفریح‘ کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن یہ جانور اپنے خاندان سے الگ ہونے کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ زندگی ’قید‘ میں گزار دیتے ہیں۔

سال بھر پہلے ہی کی بات ہے جب پشاور کے نئے چڑیا گھر کے لیے افریقہ سے  زرافہ خرید  کر لائے گئے، جن میں ایک زرافہ منتقلی کے دوران چوٹیں لگنے سے راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ دوسرا چند مہینے قبل جب کہ تیسرا کچھ دن پہلے ہلاک ہوا۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے چڑیا گھر حکام نے کہا کہ زرافہ کو کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ وہ اچانک سے زمین پر آگرا اور ہلاک ہو گیا۔

پشاور چڑیا گھر میں ہلاک ہونے والے یہ واحد جانور نہیں ہیں بلکہ جب سے یہ چڑیا گھر بنا ہے تب سے یہاں مختلف جانوروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں مور، بندر، برفانی چیتا،  بنگالی چیتا وغیرہ شامل ہیں۔

جانوروں کی  ہلاکتوں کے حوالے سےانڈپینڈنٹ اردو نے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر افتخار زمان سے استفسار  کیا تو انہوں نے کہا کہ جانور تو مرتے رہتے ہیں یہ کوئی ایسی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا میں زرافہ کے اموات کی شرح زیادہ ہے۔ پچھلے تین سالوں میں بعض ترقی پذیر ممالک میں بھی تقریباً 30 زرافہ مرے ہیں۔ لہذا پشاور چڑیا گھر واحد جگہ نہیں ہے جہاں جانوروں کی اموات ہو رہی ہیں۔‘

انگریزی کا ایک معقولہ ہے کہ دو غلطیاں مل کر درست نہیں ہو جاتیں۔ دنیا کے کسی بھی چڑیا گھر میں اگر جانوروں کی اموات ہو رہی ہیں۔ تو اس کے پیچھے بھی اسباب کارفرما ہیں۔

خیبر پختونخوا کی پچھلی حکومت کے دوران جب چڑیا گھر بنانے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا تو صوبے کے بعض جانور دوست افراد نے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز بلند کرکے موقف اختیار کیا تھا کہ چڑیا گھر کی جگہ پالتو اور دیگر جانوروں کے علاج معالجے کے لیے ایک جدید سرکاری ہسپتال قائم کیا جائے۔

تاہم یہ نہ ہو سکا اور ’تفریح‘  و ’ایجوکیشن‘ کے نام پر  پشاور میں اربوں روپے کی لاگت سے ایک چڑیا گھر تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح فروری 2018 میں ہوا تھا۔

تاہم وقفے وقفے سے قیمتی جانوروں کا مرنا ایک معمول بن گیا۔ یوں ایک طرف منافع اور دوسری جانب اس سے کہیں  زیادہ نقصان ہونے لگا، جب کہ  تمام جانوروں کی دیکھ بھال پر ہونے والے اخراجات الگ رہے۔

سیکریٹری جنگلی حیات  و جنگلات شاہد اللہ کے مطابق یہ اخراجات مہینے کے30 لاکھ بنتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو چڑیا گھر کے جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے بتایا کہ وہ  خود چڑیا گھر کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔

’میں کئی بار ایک عام شہری کی طرح ٹکٹ لے کر چڑیا گھر گیا ہوں تاکہ کسی کو پتہ چلے بغیر میں اندر کے حالات جان سکوں۔ پچھلے وقتوں میں مرنے والے جانوروں کو کوئی وائرل بیماری  تھی۔ موجودہ زرافہ کا پوسٹ مارٹم کرکے بہت جلد وجہ معلوم کر لی جائے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چڑیا گھر کے تمام جانوروں کےخوراک کا ہم پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ ہاں البتہ جنگلوں میں انہیں جو ماحول اور قدرتی غذا ملتی تھی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔‘

شاہد اللہ نے مزید بتایا کہ چڑیا گھر صرف تفریح کی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں بچوں کی ایجوکیشن بھی ہوتی ہے۔ تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ جانور حقیقت میں کس طرح نظر آتے ہیں اور کس طرح کے رویے رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا چڑیا گھر کے اندر تمام خریدے گئے جانور نہیں ہوتے بلکہ ان میں ایسےجانور بھی ہوتے ہیں جو زخمی حالت میں ریسکیو کرکے لائے جاتے ہیں۔

’ہم نے بعض جانوروں کو ریسکیو کر کے ان کا علاج کرکے چڑیا گھر میں رکھ لیا۔ جنگلی حیات کی بین الاقوامی پالیسی کے مطابق اگر ایک دفعہ جنگلی جانور کو علاج کے لیے لایا جائے تو پھر اس کو جنگل میں نہیں بھیجنا چاہیے بلکہ پنجرے میں رکھ لینا چاہیے۔‘

’تجسسس کی خاطر جانوروں کو قید کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں‘

ایجوکیشن، تفریح، اور کنزرویشن تین وجوہات ہیں جن کو بنیاد بنا کر جنگلی جانوروں کو قید کر لیا جاتا ہے۔ تاہم اب دنیا بھر سے ناقدین بحث کر  رہے ہیں کہ یہ کم علم دور کے فرسودہ خیالات ہیں۔

سیکرٹری شاہد اللہ کے مندرجہ بالا دعوے کے برعکس رواں سال فروری کے مہینے میں برطانیہ کے ایک وائلڈ پارک سے چیتوں کا ایک جوڑا جنوبی افریقہ کے میدانوں میں چھوڑا گیا۔ تاکہ وہ اپنے فطری مسکن میں زندگی بسر کر سکیں۔‘

اس وائلڈ لائف پارک کے مالک نے برطانیہ کے تمام چڑیا گھروں کو بھی بند کروانے کے لیے مہم شروع کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صرف اپنے تجسس کی خاطر جانوروں کو قید کرنے کا ہمارا کوئی حق نہیں بنتا۔

جانوروں کے مرنے کی بڑی وجہ سٹریس

ایبٹ آباد کے گورنمنٹ کالج میں زوولوجی کے طالب علم محمد اسامہ نے چڑیا گھروں میں مرنے والے جانوروں اور پشاور کے چڑیا گھر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تین اہم عوامل ان جانوروں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔

ایک آب وہوا، دوسرا خوراک، تیسرا ذہنی تناؤ یا ڈپریشن۔

’یہ جانور فطری ماحول سے لاکر قید میں رکھے جاتے ہیں۔ جہاں ان کی جسمانی ضرورت کے مطابق پانی اور پروٹین نہیں ملتا لیکن اس سے بھی بڑی وجہ ان کا ذہنی دباؤ لینا ہوتا ہے۔‘

محمد اسامہ کہتے ہیں کہ جانوروں سٹریس لیتے ہیں جس سے ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں کیڑے  اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے میں ان کا معائنہ اور ڈی وورمنگ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ورنہ  ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘

پشاور چڑیا گھر میں جانوروں  کی اموات صرف ایک مالی نقصان نہیں ہے بلکہ یہ ایک جاندار اور جذبات رکھنےوالی مخلوق کے ساتھ  زیادتی بھی ہے۔ لہذا جانوروں کی جانوں کے بدلے تفریح مہیا کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت ان تمام جانوروں کو واپس اپنی دنیا میں چھوڑ آئے اور بچوں کی ایجوکیشن کے لیے کچھ اور تدابیر اختیار کیے جائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان