'ماضی میں ایک جمہوری حکومت ججز کی جاسوسی پر ختم ہو چکی ہے'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی معطلی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے کہا کہ انہوں نے عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کرنا ہے کہ جج کے خلاف شواہد کیسے اکٹھے کیے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی معطلی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کرنا ہے کہ جج کے خلاف شواہد کیسے اکھٹے کیے گئے جبکہ ججز کی نگرانی بھی ایک اہم نقطہ ہے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ 'ماضی میں بھی ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی کرنے پر ختم کیاجا چکا ہے۔'

1996 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تھی تو اس کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے ججز کے فون ٹیپ کیے تھے اور ان کی جاسوسی کی تھی۔ یہ اس وقت کے عدالتی فیصلے میں درج ہے، جس کا حوالہ آج سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے دیا ہے۔

جمعرات کو سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق بحث کریں۔ 'ایسٹ ریکوری یونٹ سے متعلق دو تین مثالیں اور بیان کر دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ ججز کے ضابطہ اخلاق کی قانونی قدغن ہے کہ نہیں؟ ہم آپ کو تفصیل سے سنیں گے۔'

بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کریں، جبکہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں اور جج کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت میں ہوگی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو۔'

فروغ نسیم نے مزید کہا کہ 'معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے۔ مس کنڈکٹ کی آرٹیکل 209 میں تعریف نہیں کی گئی۔آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے۔'

جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہوگا کہ مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کی بجائے آئین کے تحت ہی دیکھی جائے۔'

فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں ہے۔ ایمنسٹی سکیم کے تحت جج اور ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں۔ بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ معاملہ نہیں ہے۔'

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا؟

جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 'جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا تھا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم سے کہا کہ 'آپ نے حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا۔'

بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ 'پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں۔ اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔'

فروغ نسیم کے مطابق: '2018 کی ایمنسٹی سکیم قانون کے تحت ججز، بیگمات یا ان کے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے۔ پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں، جس کے تحت ججز اور ان کی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔'

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے۔ لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں ہے لیکن آپ کی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟'

جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 'اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے۔ اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے ان کی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہو گی۔درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں اور معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثے گروی بھی نہیں ہیں۔'

جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ 'کل آپ یہ کہتے ہیں کہ جو اثاثے تسلیم کیے گئے ان کو ظاہر کرنا چاہیے تھا؟ اگر بیگم آزاد اور اپنی آمدنی سے اثاثے خرید سکتی ہیں تو اس کی وضاحت بھی بیگم ہی دے سکتی ہیں۔'

دوسری جانب جسٹس سجاد علی شاہ نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں۔ کیا آپ نے بیگم سے پوچھا کہ جائیداد یا فلیٹ کہاں سے لائی ہیں؟ نیب قانون میں بھی جس کے نام پراپرٹی ہوتی ہے اس کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگر اصل سورس نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہے۔'

جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 'ڈسپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام ججز پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز ہوتے ہیں۔ پولیٹکل ایکسپوزڈ پرسنز میں افواج اور عدلیہ کے عہدیدار شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 22 کے سیکرٹری کے لیے بنائے گئے قواعد ججز پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔'

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ 'یاد رکھنا چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی ایشو ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے۔'

واضح رہے کہ شق 116 کے مطابق ٹیکس ادا کرنے والے کو اپنے زیر کفالت کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میرا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ آج آپ کو مقررہ وقت سے بھی زیادہ وقت دیا ہے۔اس دوران آپ ایک پوائنٹ بھی مکمل نہیں کر سکے۔ '

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں نے تو درخواست گزاروں کے وکلا سے کم وقت لیا ہے لیکن میں آئندہ  دو روز میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔

جس کے بعد عدالت نے سماعت جمعہ (12 جون) تک کے لیے ملتوی کردی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان