جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف’غیر قانونی‘ قرار داد، وکلا برادری تقسیم

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ایک متنازعہ قرار داد پر وکلا برادری تقسیم ہو گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی، تصویر بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ایک متنازعہ قرار داد پر وکلا برادری تقسیم ہو گئی۔

پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک مبینہ قرارداد منظور کی ہے جس میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں پاکستان فوج اور انٹر سروسز انٹیلی جنس( آئی ایس آئی ) کے خلاف ’منفی‘ اور ’متعصبانہ‘ ریمارکس پر احتجاج کرتے ہوئے جسٹس عیسٰی کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم، کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین شاہ نواز اسماعیل گجر اور دیگر اراکین نے اس قرارداد کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا اور کہا کہ جسٹس فائز عیسی کا فیصلہ آئین وقانون کے مطابق ہے۔

جسٹس عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اِسی سال فروری میں فیض آباد دھرنا کیس کے تفصیلی فیصلے میں فوج اور آئی ایس آئی کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت دفاع کو حکم دیا تھا کہ وہ تینوں افواج کے سربراہان کے ذریعے دھرنے میں ملوث افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔

اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، وزیر ریلوے شیخ رشید و دیگر کی سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور ہو چکی ہیں۔

پنجاب بار کونسل کی قرارداد

پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین افتخار ابراہیم ایڈووکیٹ اور دیگر اراکین کے دستخط سے پیش کی گئی ’قرار داد‘ میں کہا گیا کہ پنجاب بار کونسل فیض آباد دھرنا کیس میں پاکستان فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف دیے گئے فیصلے کو پاکستان دشمنوں کابیانیہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرتی ہے۔

قرار داد کے مطابق جسٹس عیسیٰ نے قومی سلامتی کے محافظ اداروں کو بغیر کسی ثبوت کے مورد الزام ٹھہرا کر ملک دشمن قوتوں کو پاکستان کی دفاعی ایجنسیوں کے خلاف پرا پیگنڈا کرنے کاموقع فراہم کیا، لہذا پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آئین کے آرٹیکل (5)209 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ کے جج کے عہدہ سے برطرف کیا جائے۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ عدلیہ اور فوج سمیت ریاست کے تمام اداروں کو آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کام کرناچاہیے اور عدلیہ کے ارکان کو بھی ریاست کا وفادار اور آئین وقانون کا پاسدار ہوناچاہیے۔

کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی عدالتی ضابطہ اخلاق اور آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ساتھی ججوں اور پاک فوج پر ذاتی حملے کرکے عدالتی کوڈ آف کنڈکٹ کو پامال کیا۔ اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی آئین وقانون کے عین مطابق تھی۔

جسٹس فائز عیسی کے حق میں قرارداد

سندھ بار کونسل، ہائی کورٹ بار، کراچی اور ملیر بار نے مبینہ قرار داد کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کے حق میں قرار داد منظور کر لی۔

مشترکہ قرار داد کے متن کے مطابق  کچھ نادیدہ قوتیں عدلیہ کو دباؤ میں لانا چاہتی ہیں۔ پنجاب بار کٹھ پتلیوں کی بھی کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہی ہے۔ سندھ کی تمام وکلا برادری کراچی بار کے اصولی موقف کے ساتھ کھڑی ہے۔

قرار داد کے مطابق، کراچی بار نے جسٹس شوکت صدیقی کی ذات کیلیے نہیں بلکہ عدلیہ میں اداروں کی مداخلت کی تحقیقات کی استدعا کی ہے، لیکن جسٹس شوکت صدیقی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تحقیقات نہیں کرائیں۔ قرار داد میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی انتہائی اچھی ساکھ کے مالک جج ہیں اور انہیں کوئٹہ کمیشن کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پنجاب بار کونسل کی وضاحت

پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین شاہنواز اسماعیل گجر کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیاکہ چھ رکنی ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب بار کی ذیلی کمیٹی ہے اور اسے کوئی بھی قرارداد منظور کرنے کا اختیار نہیں، اس لئے جاری کی گئی قرارداد کا پنجاب بار کونسل سے کوئی تعلق نہیں۔

وضاحت میں کہا گیا کہ قرارداد عموما پنجاب بار کے جنرل ہاؤس میں منظور کی جاتی ہے اور اس ضمن میں نہ کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی ایسی کوئی قرارداد منظور ہوئی۔

وضاحت میں مزید کہا گیا کہ پنجاب بار کونسل سمجھتی ہے کہ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور آزاد عدلیہ کا قیام ملکی سالمیت اور بقاکا ضامن ہے۔

پنجاب بار کونسل نے ’غیر آئینی‘ قرارداد لانے کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔

’مشکوک معاملہ‘

معروف قانون دان حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو عدالتی فیصلوں پر تنقید سے پہلے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے۔

’جسٹس فائز عیسی قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے جج ہیں، کسی بھی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل ہو سکتی ہے یہی قانونی راستہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دھرنا کیس کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ کے سینئیر جج کے خلاف قرار داد اس وقت سامنے آئی جب جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف کیس آخری مراحل میں ہے لہذا یہ معاملہ مشکوک لگتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے اقدامات وکلا کو تقسیم کر کے عدلیہ پر دباو ڈالنے کے لئے ہوتے رہے ہیں۔

رکن پاکستان بار کونسل اعظم تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب بار  کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ’نادیدہ قوتوں‘ کے کہنے پر جسٹس فائز عیسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جبکہ اس کمیٹی کو کوئی قرار داد منظور کرنے کا اختیار حاصل نہیں، اس لئے معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔

سوشل میڈیا

قرارداد اور اس پر ہونے والی تقسیم کو سوشل میڈیا پر بھی غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بھی جسٹس فائز عیسٰی کے حق میں ٹاپ ٹرینڈ چلتا رہا جس میں بہت سے شہریوں نے اپنی ڈی پی پر جسٹس فائز عیسی کی تصویر لگا کر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا،stands with faez esaجیسے جملے تحریر کیےاور فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلے کے حق میں رائے دی۔

حسان نیازی نے اپنی ٹوئٹ میں جسٹس قاضی سے اظہار یک جہتی کچھ ان الفاظ میں کیا۔

سید سکندر علی نے اپنی ٹوئٹ میں جسٹس عیسی کے والد کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان