جسٹس عیسی کیس: ’ریفرنس میں بدنیتی ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں اور اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران کہا کہ ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں۔ عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے (اے ایف پی)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں اور اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران کہا کہ ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں۔ عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے، جج کی اہلیہ بتا دیں کہ سلائی مشین کی آمدن سے دکان خریدی ہے۔

اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے۔ ’اہلیہ آکر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا، پیسہ باہر کیسے گیا۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم آج کفالت پر دلائل دیں گے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آج پبلک ٹرسٹ اور ججز کی معاشرے میں حیثیت پر دلائل دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جواباً کہا کہ آپ اپنے نکات پر دلائل دیں۔ ’ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں لیکن درخواست گزار نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے۔ مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے۔ درخواست گزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایف بی آر نے 116 اور 114 کے تحت نوٹس جاری کیے ہیں۔ معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے لیکن اگر بدنیتی نہیں ہے تو پھر کونسل کارروائی کر سکتی ہے۔

’اس لیے آج بدنیتی اور شواہد اکٹھےکرنے پر دلائل دیں۔‘

اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے بھی ریمارکس دیے کہ کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ’ایف بی آر میں جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع بتائے جائیں تو کونسل میں دوبارہ واپس آجائیں۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں۔‘

جسٹس فیصل عرب نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’فروغ نسیم صاحب ایف بی آر میں کارروائی کے معاملے پر سوچ لیں۔‘

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالت کی نظر میں یہ ایک بہتر راستہ ہوسکتا ہے لیکن جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ ضابطے کی کارروائی کا انحصار کسی دوسری کارروائی پر ہوگا۔ جب ضابطے کی کارروائی کسی دوسری کارروائی پر انحصار کرے گی تو آزادانہ کارروائی کیسے ہوگی۔ اس صورتحال میں ضابطے کی کارروائی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔

فروغ نسیم نے جواباً کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار کسی فورم کی کارروائی پر نہیں ہے۔

’ضابطے کی کارروائی میں نہیں کہہ سکتے کہ میری اہلیہ خود کفیل ہے۔ سروس آف پاکستان کے تحت اہلیہ خاوند سے الگ نہیں ہے۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دیکھنا تو یہ ہے کہ جائیداد کی خریداری حلال ہے یا دوسرے طریقےسے ہے۔ ہمیں جوڈیشل کونسل پر مکمل اعتماد ہے۔‘

فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حکومت نے نہیں مانگا۔ ایف بی آر سے ٹیکس کا ریکارڈ جوڈیشل کونسل نے منگوایا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اگر بطور رکن پارلیمنٹ اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیل نہ بتاؤں تو نااہل ہوجاں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقع پر جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ فاضل وکیل صاحب ایسا نہ کریں۔ ایف بی آر کو پہلے خط حکومت کی جانب سے لکھا گیا۔

جسٹس منصور علی خان نے استفسار کیا کہ کیا خاوند ایف بی آر سے براہ راست اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ مانگ سکتا ہے؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میرے خیال سے خاوند ریکارڈ مانگ سکتا ہے۔'

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خیال نہیں ہے آپ قانون سے بتائیں۔ اہلیہ معلومات دینے سے انکار کرے تو ایسیصورت میں خاوند ٹیکس ریکارڈ کیسے حاصل کرے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اے آر یو یونٹ کیسے بنایا گیا، وزیراعظم تو صرف وزارت بنا سکتے ہیں۔‘

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اس کارروائی میں صدر کے خلاف بدنیتی کا الزام نہیں ہے بلکہ صدر مملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں ہے۔ ریفرنس میں کرپشن کا کوئی مواد نہیں ہے۔ صدر مملکت کا اپنی رائے بنانا آئینی رائے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کا سارا کام ایک دن میں ہوا تھا۔ افتخارچوہدری کے خلاف ایک دن میں ریفرنس بنا کر کونسل بھی بن گئی تھی۔‘

فروغ نسیم نے بینچ کے سوالات پر جواب دیا کہ ہمارے پاس یہ معلومات آئیں کہ جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع نہیں ہیں۔ حکومت نے وہ معلومات جوڈیشل کونسل کو بھج دیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ درست نہیں ہے کہ صدر مملکت کے سامنے کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ ریفرنس کا جائزہ لے کر کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’شوکاز نوٹس کی عدالت پابند نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہلیہ سے پوچھے بغیر جج سے ذرائع پوچھ  لیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون دیکھا دیں کہ جج اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دینے کے پابند ہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کی رائے کی اہمیت ہے۔ لیکن اگر صدر مملکت ایگزیکٹو کی توسیع ہے توصدر کو ریفرنس پر رائے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟

 فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں انتہائی احترام سے کہتا ہوں کہ آپ کے سوال سے متفق نہیں ہوں۔ اگر آپ کے سوال کو درست مان لیں تو آرٹیکل 48 کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 48 ون کے تحت صدر مملکت کو ربڑسٹمپ نہیں بنایا گیا۔ صدر مملکت اپنا زہین اپلائی کر سکتے ہیں ہم فیصلے میں یہ بات لکھیں گے۔

فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ حکومت کے ہاتھ بالکل صاف ہیں۔ ایف بی آر کے معاملے پر فیصلے کی ضرورت نہیں۔ کسی سے اثاثے چھپانے پر وضاحت مانگی جاتی ہے۔ جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی پٹیشن نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے مزید کہا کہ منفی مہم چاہے ہمارے خلاف ہو یا درخواست گزار کے خلاف ہو وہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جائیداد جج کی ہے لیکن ٹرائل پر ہم ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ کس صورتحال سے گزر رہا ہوں۔ الزام ہم پر لگ رہا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پھر آپ اندازہ کریں جج کس عذاب سے گزر رہے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھیں کیسے پریس کانفرنس ہوئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ملک کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ کے جذبات کو ہم سمجھتے ہیں۔ ان باتوں کو نظر انداز کریں۔

فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ کونسل کے پوچھنے پر جج کے جواب دینے سے عدلیہ کا اعتماد بڑھے گا۔ خود کفیل اہلیہ پرسول سرونٹ جوابدہ نہیں اس لیے قانون میں تفریق پیدا کرنی پڑے گی۔ باقی سول ملازمین تو اہلیہ کی جائیداد کی وضاحت دیں لیکن ایک سول سرونٹ کہتا ہے میں اہلیہ کی جائیداد پر جواب نہیں دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس وقت کی قلت ہے۔ ہم آپ کو بدنیتی اور شواہد کے غیر قانونی طریقےسے اکھٹے کرنے پر بھی سنیں گے۔ جاسوسی کے نقطہ پر بھی آپ کو سننا چاہیں گے اور ایف بی آر کے معاملے پر آپ نے رضا مندی کا اظہار کیا تو منیر اے ملک کی رضا مندی بھی لیں گے۔

انہوں  نے کہا کہ آپ کے پاس دلائل کے لیے باقی تین گھنٹے رہ گئے ہیں۔ جمعرات کو آپ کے ساتھی وکلا کو سنیں گے۔ اگر کل تک دلائل ختم نہ ہوئے تو جمعرات کو بھی ایک گھنٹہ دے دیں انہوں نے مزید کہا کہ کل اگر ہمیں رات دیر تک بھی بیٹھنا پڑا تو آپ کو سنیں گے۔

فروغ نسیم نے ریفرنس کے معاملے پر مشاورت کے لیے کل تک کا وقت مانگ لیا۔ سماعت 17 جون تک ملتوی کر دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان