’میرے بچے کے پاس جنون تھا بندوق نہیں‘

عوام کے ذہنوں میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر کئی سوالات ہیں۔ کیا عوامی تحریک کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے پاس اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے؟

اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی میں کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ کہاں سے مل رہا ہے؟ (اے ایف پی)

دنیا کو کشمیر سے اگر کوئی خبر ملتی ہے تو وہ زیادہ تر عسکری تصادم سے متعلق ہوتی ہے۔ تصادم کے نتیجے میں ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ ہوتا ہے۔  اس طرح کافی عرصے سے پوری دنیا میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ بھارت کے زیر اتنظام جموں و کشمیر محض دہشت گردی کا اڈہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے لاکھوں فوجیوں کی تعیناتی کا جواز خود بخود پیدا ہوتا ہے۔

سرکاری پریس کانفرنسوں میں بار بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ عسکری قیادت کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے اور اب چند گنے چنے ’دہشت گرد‘ ہیں جن کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔

نعیمہ احمد مہجور کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

ظاہر ہے کہ ان خبروں کی تحقیق و تصدیق محض اس حد تک ہی ہوتی ہے کہ فلاں علاقے میں فوجی کارروائی کے دوران اتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں، اتنے مکان مسمار کر دیئے گئے ہیں اور کسی نامعلوم مقام پر ان جلی کٹی لاشوں کو دفنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی کسی طرح جانچ نہیں ہوتی کہ ہلاک ہونے والے عسکری پسند تھے یا عام شہری؟ تربیت یافتہ تھے یا محض جنونی؟

ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے رشتہ دار حقیقت بتانے کی ہمت نہیں کرتے اور نہ کوئی ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ دہشت زدہ ماحول میں ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہے۔

کشمیری میڈیا کو اتنا مشغول اور مشروط بنا دیا گیا ہے کہ کوئی کچھ کہنے کی جرت ہی نہیں کرتا۔ پھر کس عتاب سے گزرنا ہوگا اس لیے  بھی کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا ویسے بھی دنیا میں صحافت کا جب سے نیا سانچا بنایا گیا ہے سوال پوچھنے کی ضرورت ختم کر دی گئی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ رپورٹنگ کے نئے قوانین لاگو ہونے کے بعد بعض صحافیوں نے اپنے پیشے کو ہی چھوڑ دینا بہتر سمجھا۔

جرنلزم کے استاد پیٹر کوہن کہتے ہیں کہ سکول آف جرنلزم اس وقت زمین برد ہوگیا جب عراق جنگ کے دوران اتحادی فوج کے ہمراہ رپورٹرز تھے اور جن کو فوج کی فراہم کردہ خبریں دنیا تک پہنچانے کا کام دیا گیا تھا۔ جن ملکوں میں آزادی تحریر اور تقریر کی بنیاد پڑی تھی وہیں اس کا جنازہ بھی نکلا۔ جب میڈیا کو کنٹرول کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو دیگر ممالک نے اس کو جواز کے طور پر پیش کیا۔

رواں ماہ میں کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں پےدر پے چار فوجی کارروائیوں میں تقریباً 14 ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا گیا۔ حالیہ کارروائی ترکوانگن علاقے میں کی گئی جہاں تین مشتبہ عسکری پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تصادم کے بارے میں زیادہ تر معلومات  پولیس یا فوج کی جانب سے فراہم  کی جاتی ہیں۔

مقامی صحافیوں کو اب کافی عرصے سے کارروائی کے مقامات سے دور رکھا جاتا ہے یا صرف ایسے رپورٹروں کو آنے کی اجازت ہے جو حکومت نواز چینلوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ اکثر خبر کا سرکاری مراسلہ نشر کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی طرح کوئی رپورٹر اینکاونٹر کی جگہ پر جا کر معلومات حاصل کرنے کی سعی بھی کرتا ہے تو اس کو ہراساں کرنے میں دیر نہیں لگتی یا ایف آئی آر درج ہونے کی خبر گھر پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔ مقامی صحافیوں نے کئی بار اس کی شکایت کرنے کی جرت بھی کی لیکن اس کا کوئی مداوا نہیں دیکھا گیا۔

جموں کے ایک سینیئر صحافی جو کافی عرصے تک ایک معروف اخبار سے وابستہ رہے ہیں کہتے ہیں کہ ’خوف کے اس ماحول اور میڈیا کی نئی پالیسی کے بعد یہ سوال کرنے کی جرت کون کرے کہ آپ نوعمر لڑکوں کو ہلاک کر کے انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہو اور پھر ان سے بارود اور بندوقیں پکڑنے کا دعوی بھی کرتے ہو، ان کے گھر کو اور دس پندرہ پڑوسی مکانات کو بارود سے اڑا کر یہ بھی کہتے ہو کہ گولی گھر سے چلی تھی۔ کشمیر میں جہاں پوری وادی پر قہر ڈھایا جا رہا ہے وہیں کشمیری میڈیا کو محافظ خانے میں قید کر دیا گیا ہے۔ اب روزی روٹی کیسے چلے گی بس زندگی کی بڑی ترجیح یہ بن گئی ہے۔‘

بھارتی حکومت بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنا کر دراندازی کو روک دیا گیا ہے جہاں بقول بھارت عسکری پسندوں کو اسلحہ یا تربیت حاصل ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود اسلحہ اور بارود پھر کہاں سے آتا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

نوعمر بچوں کو دہشت گرد ٹھہرا کر ان کی ہلاکت ہوتی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس کی تصدیق کون کرے کہ یہ نوجوان عسکری پسند کب بنے؟ اسلحہ کہاں سے آیا اور کن خاندانوں سے ان کا تعلق رہا ہے؟ یہ سب سرکاری پریس نوٹوں کے پنڈال میں دب جاتا ہے اور نہ اس طرح کی کوئی تحقیقی کام ہوا ہے جو ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی حالات زندگی پر روشنی ڈالتا۔

وزیر اعظم عمران خان کئی بار یہ عہد دہرا چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی صورت میں ’دہشت گردی‘ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ مظفر آباد جا کر عوام کو ہتھیار استعمال نہ کرنے کی تلقین بھی کی۔ اس کے باوجود بھارتی سکیورٹی فورسز پاکستان پر نوجوانوں کو سرحد پار بھیجنے اور کشمیر میں عسکری تحریک چلانے کا الزام بار بار عائد کرتا ہے۔ 

کون سچ بول رہا ہے یا جھوٹ  اس پر پردہ پڑا ہے لیکن اس مخمصے میں جہاں ایک طرف کشمیری ہر روز ہلاک کئے جاتے ہیں وہیں زمینی صورت حال کی کسی کو خبر نہیں ملتی۔ عوامی طبقوں نے عالمی اداروں کی جانب سے صیح حالات کا پتہ لگانے کا کئی بار مطالبہ بھی کیا لیکن یہ آوازیں ہمیشہ ’دہشت گردی‘ کے راگ تلے دب جاتیں ہیں۔

مقامی پولیس سے ریٹائرڈ ہونے والے ایک افسر نے جو اپنی سوانح حیات کے بارے میں ایک محفل میں تبادلہ خیال کر رہے تھے کسی سے سرگوشی میں کہا کہ ’سرحد پار سے اسلحہ لانے کی کیا ضرورت ہے جب ہمارے پاس وہ سارا اسلحہ موجود ہے جو نوے کی دہائی کے دوران عسکری پسندوں سے پکڑا گیا ہے۔ آپ کسی کو بھی ہاتھ میں اسلحہ تھما کر دہشت گرد بنا سکتے ہیں۔ دہشت گرد بنانا سب سے آسان کام ہے۔ پولیس میں بڑے پیمانے پر ردو بدل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کا راگ الاپ کر ریاست کی شبیہ ہی بدل دی جائے۔‘

موجودہ فوجی کارروائیوں میں زیادہ تر مقامی نوجوان مارے جاتے ہیں جن کی عمریں 12 سے لے کر 30 سال تک ہوتی ہیں۔ اکثر نوجوانوں کا تعلق ان گھروں سے ہوتا ہے جو معاشی اعتبار سے بہتر ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریبن شوپیاں میں حال ہی میں ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ سے میں نے پوچھا کہ آپ کے بیٹے نے بندوق کہاں سے حاصل کی تھی اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بندوق کیوں اٹھائی؟ تو وہ چند سیکنڈ خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی ’میرے بچے کے پاس جنون تھا بندوق نہیں، خواب تھا مگر خواب کو پورا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ یہ جو نوعمر بچے عسکریت پسندوں کے زمرے میں رکھے جاتے ہیں یہ دراصل وہ بچے ہیں جنہوں نے فوجی زیادتی کو اتنا سہا ہے کہ اب ان میں برداشت نہیں ہے۔ انہوں نے بندوق کے سائے میں آنکھ کھولی اور بربریت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

’انہوں نے اپنے علاقے میں بنیادی حقوق سلب ہوتے دیکھے ہیں، بہنوں کی عصمتوں کو تار تار ہوتے دیکھا ہے، انہیں موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور عزت سے مرنے کے لیے خود کو عسکریت پسند جتلاتے ہیں۔‘ وہ یہ کہتے ہوئے کافی روئی۔

حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں کہتی ہیں کہ وادی میں ایسے حالات بنائے گئے ہیں جو مقامی نوجوانوں سے زندہ رہنے کا حق چھین رہے ہیں۔ ان کو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آریا ہے، مقامی قیادت کو ختم کر دیا گیا ہے، عسکریت کے نام پر درجنوں ہلاکتیں کی جا رہی ہیں اور باہر کے لوگوں کو بسانے کا عمل جاری ہے۔

دراصل یہ ایک ایسی پالیسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے کہ کشمیری عوام اپنے حقوق کی لڑائی سے دست بردار ہوں مگر کوئی حکومت سے یہ سوال ہی نہیں کرتا کہ جب آپ نے کشمیر کے چپے چپے پر فوجی بنکر اور فوجی جوان تعینات کر دیئے ہیں تو بارہ تیرہ سال کے بچوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا۔

میں نے دہلی میں انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن سے جب پوچھا کہ کیا وہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہلاک ہونے والا نوجوان کب اور کیوں عسکریت پسند بنا تو انہوں نے جواب دیا کہ کشمیر میں نوے کی دہائی میں ہزاروں نوجوانوں نے کھلے عام ہتھیار اٹھائے جو پاکستان سے آئے۔ بیشتر ہتھیار بھارتی فوج نے پکڑے اور عسکری پسندوں کا خاتمہ  کیا۔ اس وقت نو عمر لڑکے عسکریت ہونے کا محض دعوی کرتے ہیں اور فوج کے لیے کام آسان ہو جاتا ہے۔

ان کو ہلاک کر کے دہشت گرد قرار دینا اور بھی آسان ہے۔ اگر سرکار شہریوں کو دہشت گرد ٹھراتی ہے تو کیا سرکار دہشت گرد نہیں ہوسکتی۔ بلکہ دہشت گردی کی ہر تحریک کے پیچھے صرف سرکار ہی رہیں ہیں وہ چاہے جمہوری ملک ہو یا آمرانہ نظام ہو۔‘

عوام کے ذہنوں میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر کئی سوالات ہیں۔ کیا عوامی تحریک کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ یا پھر ان نوجوانوں کے پاس اسلحہ یا تربیت ہے؟  اگر ہے تو کیا پاکستانی وزیر اعظم جھوٹ بول رہے ہیں؟

ظاہر ہے کہ ان سوالوں کے جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں لیکن ریسرچ کے لیے یہ اہم موضوع ہے جس پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ