وادی گلوان میں چین کی نئی تعمیرات کا انکشاف

نئی سیٹلائٹ تصاویر سے چین کے نئے انفراسٹرکچر کا اندازہ ہوتا ہے اور اس پیش رفت سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو ہمسایہ ممالک کے مابین تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

لداخ کے دارالحکومت لیہہ پر بھارتی  جنگی طیاروں کی پرواز (اے ایف پی)

چین نے لداخ کے علاقے وادی گلوان میں بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپ والےعلاقے کے قریب نئے انفراسٹرکچر کا اضافہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق نئی سیٹلائٹ تصاویر سے چین کے نئے انفراسٹرکچر کا اندازہ ہوتا ہے اور اس پیش رفت سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو ہمسایہ ممالک کے مابین تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

بھارتی اور چینی فوجی کمانڈروں نے پیر کو ہونے والے مذاکرات میں وادی گلوان میں خونی جھڑپ کے بعد متنازع سرحد کے ساتھ متعدد مقامات سے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا تھا۔

چین کی جانب سے اس علاقے میں نئی تعمیراتی سرگرمیوں کی یہ سیٹلائٹ تصاویر 15 جون کو ہونے والی جھڑپ کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہیں، جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

چینی تعمیراتی سرگرمیاں نئے چیلنج کی نشاندہی کرتی ہیں جس سے دونوں ممالک بات چیت سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور اس سے متنازع بیابان علاقے پر کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کا خطرہ بھی منڈلانے لگا ہے۔  

پیر کو امریکہ میں قائم خلائی ٹیکنالوجی فرم ’میکسار ٹیکنالوجیز‘ کی جانب سے بنائی گئی تصاویر میں دریائے گلوان کے رخ پر چین کے وسیع انفراسٹرکچر دکھائی دے رہے ہیں۔

بھارت کا الزام ہے کہ چین غیر واضح لائن آف ایکچول کنٹرول کے قریب اس کے علاقے میں نئی تعمیرات کر رہا ہے۔

دوسری جانب چین پوری وادی گلوان کا دعویدار ہے اور جھڑپوں کو شروع کرنے کا الزام بھی بھارتی فوجیوں پر عائد کرتا ہے۔

تصاویر میں جو چین کی نئی تعمیراتی سرگرمیاں دکھائی گئی ہیں ان میں کیموفلاج خیمے یا چٹان کی بیس پر ڈھانپے ہوئے سٹرکچر اور تھوڑی ہی دور ممکنہ نئے کیمپ کی دیواریں یا بنکرز شامل ہیں۔ گذشتہ ہفتے روئٹرز کو دستیاب تصاویر میں یہ کیمپ نظر نہیں آ رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسٹریلین سٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا کہ اس تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ علاقے میں کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کہا: ’وادی گلوان کی 22 جون کو لی گئیں سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'ڈس انگیجمنٹ' حقیقتاً وہ لفظ نہیں ہے جسے بھارتی حکومت کو استعمال کرنا چاہیے۔‘

تصاویر میں بھارت کی جانب سے بھی اٹھائے گئے کچھ اضافی اقدامات نظر آ رہے ہیں۔ تازہ ترین تصاویر میں بھارت کی جانب سے لگائی گئیں دفاعی رکاوٹیں دیکھی جاسکتی ہیں جو مئی میں لی گئی تصویروں میں نظر نہیں آتی تھیں۔ 

تازہ تصاویر سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایک بھارتی فارورڈ پوسٹ پیچھے ہٹا لیا گیا ہے جو چند ماہ قبل لی گئی تصاویر میں دکھائی دیتی تھی۔

چین کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ان تعمیراتی سرگرمی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دوسری جانب بھارت کی وزارت دفاع نے بھی کوئی تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

بھارتی فوجی عہدیداروں نے پہلے بھی کہا ہے کہ وہ 'ڈس انگیجمنٹ' معاہدے پر عمل درآمد کے عمل کی کڑی نگرانی کریں گے اور زمین پر اس کی تصدیق کریں گے۔

سابق بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے کہا: ’جہاں تک چینیوں کا تعلق ہے ہمیں ان پر اعتبار نہیں ہے۔‘

’اگرچہ وہ (چین) زبانی طور پر ہمیں بتا رہے ہیں کہ وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں تاہم اس کا عملی ثبوت ہم زمین پر دیکھنے کا انتظار کریں گے۔ تب تک ہماری مسلح افواج چوکس رہیں گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا