بھارت سے جھڑپ: 'چینی فوجیوں کا رویہ بہت جارحانہ تھا'

اطلاعات کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں سے لیس چینی فوجیوں کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔

بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار چین سے ملحقہ سرحد کے قریب ایک سڑک پر  تعینات ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام لداخ میں کنٹرول لائن پر پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہونے والی جھڑپ کے دوران چینی فوج نے بھارتی فوج کی 16 بہار رجمنٹ کے اہلکاروں پر حملہ آور ہونے کے لیے جدید ہتھیاروں کی بجائے لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں کا استعمال کیا۔

چینی فوجیوں کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔

ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو یہ تفصیلات فراہم کیں جبکہ بعض بھارتی میڈیا رپورٹوں میں بھی ذرائع کے حوالے سے ایسی ہی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ تاہم ان رپورٹس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ 

بھارتی دفاعی ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں دونوں ممالک نے باہمی اتفاق رائے سے وادی گلوان کے ایک بڑے حصے کو 'بفر زون' یا 'نو مینز لینڈ' قرار دیا تھا لیکن چینی فوج نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے گلوان کے جنوبی کنارے پر اپنی ایک نئی چوکی پر کام شروع کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پیر کی شام کو 16 بہار رجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل بی سنتوش بابو اور رجمنٹ سے وابستہ دیگر درجنوں اہلکار چینی فوجیوں سے بات کرنے کے لیے مذکورہ زیر تعمیر چوکی کے نزدیک پہنچے۔

'جب بھارتی فوجیوں نے چینی فوج سے زیر تعمیر چوکی کو منہدم کرنے اور پیچھے ہٹنے کے لیے کہا تو دونوں افواج کے درمیان پہلے تلخ کلامی ہوئی اور کچھ ہی منٹوں بعد شدید جھڑپ شروع ہوگئی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔'

بھارتی دفاعی ذرائع نے بتایا کہ چینی فوج نے بظاہر بھارتی فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ پہلے ہی بنا رکھا تھا کیونکہ انہوں نے جوابی حملے سے بچنے کے لیے تمام حفاظتی اقدامات اٹھائے تھے۔ انہوں نے ہیلمٹ، شیلڈ اور گھٹنوں و کہنیوں کے کور بھی پہن رکھے تھے۔

ذرائع کے مطابق: 'چینی فوجیوں کا رویہ بے حد جارحانہ تھا۔ انہوں نے کرنل سنتوش بابو اور ان کے ساتھیوں کو لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر شدید زخمی کردیا۔ وہ فوجی، جن کے ساتھ کوئی دفاعی سامان نہیں تھا، وہ بھاگنے لگے تو چینی فوجیوں نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں بھی شدید مارا پیٹا۔ بعض فوجیوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا دی لیکن اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں چینی فوجیوں نے دریا میں پھینک دیا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائع نے بتایا کہ جھڑپ کی جگہ پر بعض بھارتی فوجی منفی درجہ حرارت، سانس لینے میں شدید دشواری پیدا ہونے اور وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے بھی اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

بھارتی نیوز چینل نیوز 18 کی ایک رپورٹ میں چینی حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 23 بتائی گئی ہے تاہم منگل کی شام دیر گئے بھارتی فوج کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 20 بتائی گئی تھی۔

اسی رپورٹ میں ایک فوجی افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چینی فوجیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد 100 سے زائد ہے، جن میں سے دو درجن کے قریب افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔

بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ چین نے کچھ بھارتی فوجیوں کو اسیر بنایا تھا لیکن انہیں بعد ازاں میجر جنرل سطح کی میٹنگ کے بعد رہا کردیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ وادی گلوان میں یہ ہلاکتیں 1999 کی کارگل جنگ کے بعد بھارتی فوج کو لداخ میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے جبکہ 1967 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے جب بھارت اور چین کی افواج کے درمیان جھڑپ میں کسی ایک ملک کو اتنا بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا ہو۔

وادی گلوان میں جھڑپ کے دوران جدید ہتھیار استعمال نہ کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوا ہے جس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کتنی ہی کشیدگی کیوں نہ ہو، دونوں سرحد پر جھڑپوں سے بچیں گے اور سرحد پر تعینات فوجیوں کے پاس ہتھیار نہیں ہوں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ثاقب تنویر سے بات کرتے ہوئے بھارت میں موجود صحافی سمراٹ چوہدری نے بتایا کہ 'بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر مقامی تنازعات کوئی نئی بات نہیں،  پہلے لاتیں اور مکے چلتے تھے مگر 1975 کے بعد ایسا واقعہ پہلی دفعہ پیش آیا ہے۔'

کشیدگی بڑھنے کی وجہ کے حوالے سے سمراٹ کا کہنا تھا کہ 'تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے کے پیچھے دو ممکنہ محرکات ہو سکتے ہیں، جن میں سے ایک بھارت اور امریکہ کے تعلقات سے متعلق ہو سکتا ہے اور دوسرا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنا بھی اس کشیدگی کی وجہ ہو سکتا ہے۔'

سمراٹ کے مطابق: 'اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو پورے خطے کے لیے سنجیدہ مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔'

چین آٹھ کلومیٹر اندر

لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر رگزن سپلبار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم رفتہ رفتہ اپنی زمین کھوتے جارہے ہیں اور اس بار چینی فوج وادی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آچکی ہے۔

'ہم بارڈر پر رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہے۔ 1962 میں حقیقی کنٹرول لائن کہاں تھی اور آج کہاں ہے آپ وہ دیکھ لیں۔ چین نے تو وہاں پر اپنی سڑک بھی بنا لی ہے۔ اب چین الٹا بھارت پر دراندازی کا الزام لگا رہا ہے اور وادی گلوان پر اپنا حق جتا رہا ہے کیونکہ وہ ہمیں کمزور سمجھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل زمینی صورت حال ہائی کمان تک نہیں جاتی ہے۔ سب اپنی معیاد گزارنے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔'

سرحدوں کے نزدیک موجودہ صورت حال اور مقامی لوگوں کی رائے سے متعلق سوال کے جواب میں رگزن سپلبار کا کہنا تھا: 'فوج اور ہتھیار وہاں پر تیار حالت میں رکھے گئے ہیں۔ وادی گلوان اور اس کے مضافات میں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔'

'ہم ان چیزوں کے عادی بن چکے ہیں۔ ملکی سطح پر ہمارے لیڈر ایسے ہیں کہ پاکستان کے خلاف بولنا ہو تو خوب بولتے ہیں۔ چین کی باری آئے تو خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ چین کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا ہے۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔'

لداخ کے ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لداخ میں چین کے ساتھ ملحقہ سرحد کی صورت حال کشیدہ ہے اور لوگوں میں بھی سخت خوف و ہراس ہے۔

'میری اطلاعات کے مطابق سرحد کے نزدیک جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔ وادی گلوان اور اس کے تمام مضافاتی علاقوں میں موبائل سروس بند کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے اطلاعات کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ جو کچھ بھی سامنے آرہا ہے وہ سرکاری ذرائع کے حوالے سے ہی سامنے آرہا ہے۔'

چین کا ردعمل

دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے پہلے حملہ کیا۔

'سی این این' کے مطابق منگل کو ایک پریس کانفرنس میں چین وزارت خارجہ کے ترجمان زاو لیجیان نے کہا کہ پیر کو 'بھارتی فوجیوں نے اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی اور دو بار غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے سرحد پار کی۔ انہوں نے چینی اہلکاروں کو مشتعل کیا اور حملہ کیا جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان سنگین جھڑپ ہوئی۔'

'بی بی سی' کے مطابق چینی وزیر خارجہ وانگ یہ نے ایک بیان میں کہا: 'چین ایک بار پھر بھارت کی سخت مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ بھارت تحیقیقات لانچ کرے۔۔۔ اور تمام اشتعال انگیزی کو ختم کرے تاکہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔'

'دونوں فریقین کو تنازع کا حل بات چیت سے کرنا چاہیے اور سرحد کو پرامن اور محفوظ رکھا چاہیے۔'

چینی مصنوعات نذر آتش

چینی فوج کے بھارتی فوجی اہلکاروں پر حملے کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں ہندو قوم پرست تنظیموں نے بدھ کو چین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے چینی مصنوعات کو نذر آتش کردیا۔

جموں میں ہونے والے ایک احتجاج کے دوران مظاہرین، جنہوں نے چین میں بننے والے موبائل فونز، ٹیلی ویژن سیٹوں اور دیگر چیزوں کو آگ میں جھونک دیا، نے چین کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے زیادہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیا۔

احتجاج میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا: 'ہم چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کے رکھ دیں گے۔ چین پڑوسی ممالک کو قرضہ دے کر ہندوستان کا گھیراؤ کرا رہا ہے، ہم اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اس کو ختم کردیں گے۔'

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت اور چین کے درمیان حالیہ جھڑپ موضوع گفتگو ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر اپنی مختصر تحریروں کے ذریعے یہ سوال پوچھ ہیں کہ بھارت فوجی کارروائی کرنے سے حد درجہ احتیاط کیوں کررہا ہے؟

کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے دوسرے پڑوسی ملک پاکستان کے خلاف نہ صرف بڑی بڑی دھمکیاں دیتا رہتا ہے بلکہ کشمیر میں فوج پر عسکریت پسندوں کی طرف سے ہونے والے حملے پر پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کرنے کے بھی دعوے کرتا ہے لیکن جب چین کی بات آتی ہے تو کارروائی کی بجائے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارتی عوام بھی اپنی حکومت پر پاکستان کے خلاف ہمیشہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر زور دیتی رہتی ہے لیکن چین کے معاملے میں ہندو قوم پرست تنظیمیں بھی محتاط انداز اپنا کر چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی تاکید اور پرچار کرتی ہیں۔

کشمیریوں کا ماننا ہے کہ بھارتی حکومت و عوام کا چین کے معاملے میں لب ولہجے اور اپروچ کا بدلنا معنی خیز ہے اور چین کے سامنے اس کی کمزوری کی واضح علامت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا