چھ ماہ کے لیے سب بند کردو

وہ شوقین جو چھ ماہ کے لیے پی آئی اے کی سرے سے بندش کی وکالت کر رہے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ادارہ سدھارنے کا موقع مل گیا۔ کیا خیال ہے چھ ماہ کے لیے پورے ملک پر ہی ’کلوزڈ فار مینٹی نینس‘ کا بورڈ نہ لگا دیں۔

(اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کو ایک کریڈٹ تو دیں کہ دہائیوں سے ہمارے ملک کے جن جن شعبوں میں خرابیاں تھیں وہ ان دو برسوں میں ابھر کر سامنے آگئیں۔

ہے تو بڑی گھناؤنی سی مثال پر سن لیجیے۔ ہمارے دیسی طریقہ علاج میں سرجن کو جراح کہتے ہیں۔ جسم کی سطح پر ابھرنے والے معمولی ٹیومرز جو مزمن ہوں تو کینسر بن جاتے ہیں، ان جراحوں کے لیے معمولی مرض ہے، پر ایک ہوتا ہے اُلٹا پھوڑا۔ یہ گندا مواد جلد کی سطح پر نہیں آتا، بظاہر سب ٹھیک ہوتا ہے لیکن یہ چھپواں ٹیومر اندر ہی اندر نقصان پہنچاتا اور پھیلتا جاتا ہے۔

عفت حسن رضوی کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

جراح ایسے الٹ پھوڑے کو گرم لیپ سے پکاتے ہیں، درد بڑھاتے ہیں، چھپے ہوئے مسئلے کو ابھارتے ہیں مریض درد سے دہرا ہوا جاتا ہے۔ بعض اوقات بخار بھی چڑھ جاتا ہے، ایک بار یہ چھپا ہوا گند سامنے آ جائے تو نشتر لگا کر معمولی سرجری اور پھر فصد کی صفائی ہوتی ہے۔ یہ عمل درد دیتا اور وقت لیتا ہے مگر شفا دائمی ملتی ہے۔

اب اسے عمران خان کی ٹیم کی نااہلی کہیں یا پھر قسمت کو یہی منظور تھا کہ مریض یعنی وطن عزیز کے جسم میں چھپے امراض، یہ فاصد مواد ایک ایک کرکے ابھر آئے ہیں۔ ہر شعبہ میں نااہلی، غیر پیشہ ورانہ رویے، کرپشن اور سیاسی ٹولے بازی کا مسئلہ اب کینسر بن گیا ہے۔

ایسے نشتر، گرم لیپ، سرجری اور صفائی کی ضرورت صرف پی آئی اے کو نہیں اوپر سے نیچے تک پورے سسٹم کو ہے۔ ضرورت ہے تو بس ایک تجربہ کار جراح کی، جو پرانا گند صاف اور زخم مندمل کرے۔

پاکستان کو اس طبیب کی ضرورت ہے جو صدق دل سے علاج کرے نہ کہ مشہوری کی خاطر اپنے مریض کی جگ ہنسائی بلکہ بےعزتی کا سبب بنے۔

پاکستان سٹیل مل کو رو چکے، فی الحال تو ہم پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی عالمی سطح پر بےتوقیری پہ نوحہ کناں ہیں۔ یہ دو برس کی خرابی نہیں کہ پائلٹ کے لائسنس مشکوک ہیں یا پھر ائیر سیفٹی کا کوئی سسٹم ہی نہیں۔ پاکستان میں ایوی ایشن انڈسٹری کے یہ دیرینہ مسائل تھے۔

ن لیگ تھی تو کہا گیا شاہد خاقان عباسی اپنی ایئر لائن کی خاطر پی آئی اے کو بلی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اپنے کارکنوں کو نوکریاں دینے کے لیے یوں بھی مشہور ہے، وہ تھی تو کہا جاتا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں، مشرف دور میں ایئر فورس کے ریٹائرڈ افسران پہ الزام آیا۔

پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس میں شبہات تھے تو اندرونی انکوائری اور ملازمت سے برخاستگی تک کی جاسکتی تھی، پر حکومت نے کیا کیا، پہلے  ڈھنڈورا پیٹا اور اب سر پیٹ رہے ہیں۔

تحریک انصاف اگر ان خرابیوں کو درست کرنا چاہتی ہے تو کس نے روکا؟  مگر وزیر ہوا بازی کی بڑ بولی نے نہ صرف ملکی ادارے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن بلکہ ہوا بازی کے شعبے میں اپنی مہارت دکھانے والے ہر پاکستانی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے وہ گھاؤ دیا ہے جو ملک دشمن لابیز بھی نہ دے سکیں۔

جہاندیدہ صحافی کہہ رہے ہیں کہ گذشتہ ہر حکومت کی طرح خان صاحب کی ٹیم کو بھی پی آئی اے کے مسائل سے زیادہ وسائل میں دلچسپی ہے۔ جب جب پی آئی اے پہ برا وقت آیا نجانے کیوں ہر بار نیویارک میں واقع پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل بیچنے پر آ کر تان ٹوٹی۔ اب کی بار تو یہ برا وقت آیا نہیں بڑی کوشش سے لایا گیا ہے۔

شکر منائیں کہ وزیر تعلیم پریس کانفرنسز کرنے کے شوقین نہیں۔ ذرا سوچیں جو کبھی یہی کہہ دیں کہ ہماری تو اکثر جامعات کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ  تو ’زبان پھسل گئی تھی‘کہہ کر بری ہو جائیں گے ادھر ساری دنیا سے پاکستانی طلبہ، ڈاکٹرز انجینیئرز، کو ہی گراؤنڈ کر دیا جائے، ان کی قابلیت مشکوک ہوجائے۔

ویسے بھی ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں کے مقدمے پاکستان کے نظام تعلیم کے خلاف کیس مضبوط کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آپ اشارہ کیجیے ٹھٹھا بنانے کے لیے خاصا مواد موجود ہے۔

ایسے ہی ریلوےکا شعبہ ترقی معکوس کی تصویر بنا ہوا ہے۔ دنیا اس وقت گولی کی سی تیزی سے چلنے والی ٹرینیں بنا رہی ہے، ہمارے یہاں ٹرین پٹری سے اترے جا رہی ہے۔ بھارتی سرکلر ریلوے کا نظام بہت آگے نکل گیا، عالمی پابندیوں کے باوجود ایرانی ریلوے یورپی معیار کے برابر آگئی مگر ہمارے یہاں وہی پرانے انگریزوں کے بنائے روٹس پر ڈبوں کی لیپا پوتی کر کے کام چل رہا ہے۔

ریلوے حادثات ہوتے ہیں، مرنے والوں اور زخمیوں کی امداد کا اعلان ہوتا ہے اور بس۔ شیخ رشید صاحب بتائیں ریلوے کے نظام میں کیا سب اچھا ہے؟  بتائیں اس شعبے کی بھی جگ ہنسائی کرائی جائے یا اصلاح؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیل خانہ جات، پولیسنگ، کچہری،عدالتیں، احتساب، یہ سب نظام انصاف کے پلرز ہیں۔ ان سب کی رگ و پے میں کرپشن اور سیاست ایسے موجود ہے کہ اب تو یہ سسٹم کا اٹوٹ انگ لگتا ہے۔ جانے والی ہر حکومت ان خرابیوں میں برابر کی حصہ دار رہی۔ خبریں لگا لگا کر اخبار سیاہ ہوگئے مگر خرابی کا سدھار نہ کسی کی ترجیح تھا نہ ہے۔ آپ کہیں تو ان شعبوں کی بھی مل کر ہنسی اڑا لیتے ہیں۔

اور وہ شوقین جو چھ ماہ کے لیے پی آئی اے کی سرے سے بندش کی وکالت کر رہے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ادارہ سدھارنے کا موقع مل گیا۔ کیا خیال ہے چھ ماہ کے لیے پورے ملک پر ہی ’کلوزڈ فار مینٹی نینس‘ کا بورڈ نہ لگا دیں۔ خان صاحب تو پہلے ہی اپنی ٹیم کو پرفارم کرنے کے لیے چھ مہینے کا الٹی میٹم دے چکے ہیں۔

چھ ماہ ملیں گے سارے کرپٹ پکڑیں، باہر رکھے اربوں ڈالرز ملک واپس لائیں، آئی ایم ایف کے منہ پہ ماریں۔ ہر ادارے کی جڑ میں بیٹھے مافیا کو پکڑیں، چینی، پیٹرول اور آٹے کے کارٹیل کو توڑیں انہیں لندن بھیجنے کی بجائے سلاخوں کے پیچھے پھینکیں اور ہاں پشاور میٹرو کو بھی یاد رکھیں۔ تسلی سے ایک بار ہی پورا ملک ری سٹارٹ کیے لیتے ہیں۔

بس شرط یہ ہے کہ مسائل کا آسان حل یعنی اداروں کی نجکاری کرنے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے پاکستان کو بنانا ری پبلک مشہور کرانے، ہر محب وطن پاکستانی پہ کیچڑ اچھالنے، پریس کانفرنس کرکے واہ واہ سمیٹنے  کے عوض ملک کو بدنام کرانے کی ممانعت ہوگی۔ بولیں منظور ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ