آن لائن ہراسانی: ’اگر آئندہ پاس ورڈ تبدیل کیا تو۔۔۔‘

گذشتہ دو ماہ کے دوران آن لائن ہراساں کیے جانے سے متعلق شکایات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین کا جینا محال بنا دیا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کا اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مارچ میں رپورٹ ہونے والے آن لائن ہراسانی کے کیسز کی شرح پہلے سے 180 فیصد زیادہ ہے(سکرین گریب)

'جب یہ سلسلہ شروع ہوا، اس وقت میں 15 سال کی تھی۔ سوشل میڈیا نیا نیا تھا اور ان ہی دنوں مجھ سے ایک شخص نے رابطہ کیا۔ وہ مجھ سے آٹھ، نو سال بڑا تھا۔

شروع میں ہماری بات چیت ہوئی تو وہ بہت نارمل تھا۔ پھر اس نے اپنے گھر والوں کو میرے گھر بھیجا اور ہم کئی مرتبہ اکیلے میں بھی ملے۔ میرے والد اور گھر والوں کا نمبر بھی اس کے پاس چلا گیا۔

پھر وہ مجھے ہر کام سے روکنے لگا، حتیٰ کہ امتحان دینے سے بھی روکنے لگا کیونکہ وہاں لڑکے ہوتے ہیں۔

میں کافی سال اس کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہی،  وہ مجھے دھمکی دیتا تھا کہ میں خودکشی کرلوں گا لیکن اس سے پہلے تمہارے گھر ساری چیزیں بھیجوں گا۔

تین سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وہ کہتا تھا کہ شادی کے بعد وہ مجھے میرے گھر والوں سے دور لے جائے گا اور ایک ڈبے مں بند کردے گا اور روز تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ڈبہ کھول کر مجھے دیکھے گا۔

اس نے میرا اور میری چھوٹی بہن کا اکاؤنٹ ہیک کیا ہوا تھا اور اپنا ای میل اکاؤنٹ وہاں ڈالا ہوا تھا، جب بھی میں اس سے بچنے کے لیے پاس ورڈ تبدیل کرتی تھی تو اسے پتہ چل جاتا تھا اور وہ مجھے کہتا تھا کہ آئندہ یہ غلطی مت کرنا اور پھر وہی دھمکی دے دیتا تھا کہ اگر پاس ورڈ تبدیل کیا تو تمہاری سب باتیں خاندان کے سب لوگوں تک پہنچ جائیں گی۔

پھر وہ تین سال کے لیے غائب ہوگیا، لیکن اب کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا ہے کیونکہ اسے اپنا سب سے کمزور ٹارگٹ میں لگتی ہوں۔

بلیک میلرز کا یہی ٹائم ہے، کیونکہ انہیں مزہ چاہیے اور ان کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا ایک مشغلہ ہے۔'

یہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہراسانی کا ٹارگٹ بننے والی ایک پاکستانی لڑکی کی داستان ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران آن لائن ہراساں کیے جانے سے متعلق شکایات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور جنسی طور پر  ہراساں کیے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین کا جینا محال بنا دیا ہے۔

 

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کا اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مارچ میں رپورٹ ہونے والے آن لائن ہراسانی کے کیسز کی شرح پہلے سے 180 فیصد زیادہ ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق مارچ اور اپریل میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں 74 فیصد خواتین کی جانب سے ہوئے جبکہ 19 فیصد کیسز کا تعلق مردوں کے ساتھ  آن لائن جنسی ہراسانی سے تھا اورپانچ فیصد شکایات کا تعلق نان بائینری افراد سے ہے۔

رپورٹ کے تجزیے کے مطابق جو شکایات سامنے آئیں ان میں زیادہ تر آن لائن جنسی ہراسانی، سرویلینس، انتہائی نجی معلومات، ویڈیوز یا تصاویر کی صورت میں اپ لوڈ کر دینے، کسی کی ذاتی معلومات کا غلط استعمال کرنے وغیرہ جیسے جرائم ہیں۔

تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مارچ اور اپریل میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد خطرناک حد تک بڑھی ہے۔ جنوری میں آن لائن ہراسانی سے متعلق کل 30 شکایات موصول ہوئیں، فروری میں کل 17 کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد بڑھ کر 136 ہو گئی۔

سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ سے متاثرہ مذکورہ لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ خودکشی جیسا کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گی بلکہ اس سب کے خلاف لڑیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں اور ایف آئی اے اور دیگر تنظیموں سے مدد کی توقع رکھتی ہیں۔

ایک اور متاثرہ خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو حال ہی میں ایک انجان آئی ڈی سے فرینڈ ریکوئیسٹ آئی جس کو انہوں نے قبول کر لیا، جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

متاثرہ خاتون نے بتایا کہ اس کے بعد ان کی فیس بک آئی ڈی ہیک کرکے تمام نجی معلومات حاصل کرلی گئیں اور ان کے جاننے والوں پر سب کچھ افشاں کرنے کی دھمکی دے کر غیر اخلاقی حرکات کروائی گئیں۔

خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے اداروں پر اعتبار نہیں ہے۔ ’میں مزید مشکلات نہیں کھڑی کرنا چاہتی، بس چاہتی ہوں کہ اس سب سے میری جان چھوٹ جائے۔‘

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رواں ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ میں حکومت اور انتظامی اداروں کو سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں کہ کرونا وائرس کی صورت حال میں ایف آئی اے کا آن لائن شکایات کا سلسلہ مزید فعال ہونا چاہیے، جس سے شکایت کنندہ کو کسی بھی مشکل میں اتھارٹیز تک پہنچنا اور کیس دائر کرنا آسان ہو۔

رپورٹ کے تجزیے کے مطابق خواتین بدنامی کے ڈر سے یا اداروں کی جانب سے اپنی نجی معلومات کے غلط استعمال کے شبہ کی وجہ سے اپنا کیس درج نہیں کرواتیں، یا پھر کیس ادھورا چھوڑ دیتی ہیں۔

آن لائن ہراسمنٹ ہے کیا؟

دور جدید میں انٹرنیٹ کے جہاں فائدے بہت ہیں، وہیں صارفین کی سکیورٹی پر بہت سے سوال بھی کھڑے ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں آن لائن ہراسمنٹ کے کیسز کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے بڑھنے کی ایک وجہ صارفین کا اس حوالے سے لاعلمی بھی ہے۔

پہلا سوال ہی یہ ہے کہ آخر آن لائن ہراسمنٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی اقسام کیا ہیں؟ اس کے بہت سے جواب ہوسکتے ہیں۔

1. اس کی ایک شکل سٹاکنگ ہے، جس میں مجرم کسی کا خفیہ طور پر پیچھا کرتا ہے۔ قانونی طور پر یہ ایک جرم ہے اور اس کی ذیلی حیثیت ایک بڑے جرم کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔  کسی بڑے جرم کی ابتدا آن لائن سٹاکنگ سے ہی ہوتی ہے جو کہ خود ایک جرم ہے۔

2. دوسری صورت آپ کے اکاؤنٹ کو ہیک کرنا، آپ کی نجی معلومات تک پہنچنا اور پھر اس کا غلط استعمال کرنا، اس کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا وغیرہ ہے۔

یہ ایک جرم ہے جس کی پاکستان کے سائبر کرائم کے قوانین کے تحت سخت سزائیں مختص ہیں۔ اس کی ایک اور شکل، اس معلومات تک رسائی کے بعد اس کی تشہیر کی صرف دھمکی دینا بھی جرم ہے اور آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی نجی معلومات کی تشہیر کرنا ایک انتہائی درجے کا جرم ہے۔

سائبر کرائم کا قانون آپ کو ان جرائم سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس سب میں کسی بھی شہری کی جنسی و غیر اخلاقی نوعیت کی تصاویر، یا ویڈیو کو شائع کر دینا سنگین نوعیت کا جرم ہے۔

3. اسی نوعیت کا ایک اور جرم، کسی کا آئی ڈی، ای میل اور پاس ورڈ چوری کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی آپ کے نام کا جعلی اکاؤنٹ بنائے اور آپ کو بلیک میل کرے تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے جس کے لیے آپ کو قانونی مدد لینی چاہیے۔

آپ آن لائن ہراسمنٹ کا شکار ہورہے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

پہلے تو یہ یقین رکھیں کہ آپ دنیا کے پہلے انسان نہیں ہیں جو اس طرح کی صورت حال سے دو چار ہو رہے ہیں۔ ایسے واقعات دنیا میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں سائبر کرائمز کے خلاف اور شہریوں کے آن لائن تحفظ کے لیے قوانین بھی بنے ہوئے ہیں۔

ایسے واقعات میں متاثرہ شہری حواس کھو بیٹھتے ہیں، لیکن آپ کو خود پر قابو پانا ہے، کیونکہ جو شخص ایسا کررہا ہے وہ قانوناً جرم ہے جس سے آپ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

ایسی صورت بن جانے پر آپ کو جلد ہی کسی قابل اعتبار شخص کو تمام صورت حال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ایک دم گھر والوں کو بتا دینا شاید مزید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اگر والدین معاون ثابت ہوسکتے ہوں، تو تب ہی ان کو ساری تفصیل سے آگاہ کریں، ورنہ کسی باشعور دوست یا قابل اعتبار رشتہ دار کو تلاش کریں جو آپ کو اس مشکل سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ خود اتنی معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں تو انٹرنیٹ آپ کا بہترین دوست بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اس صورت حال سے نکلنے کے طریقوں سے آگاہی باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

آپ نے بلیک میل کرنے والے شخص کے خلاف تمام ثبوت محفوظ رکھنے ہیں۔ مثلاً واٹس ایپ، فیس بک مسینجر کی وہ گفتگو جس میں وہ دھمکا رہا ہے اور آپ کی نجی معلومات کو افشاں کر دینے کی بات کر رہا ہو۔

اس کے علاوہ اس فیس بک آئی ڈی کا یو آر ایل، انسٹاگرام، ٹوئٹر یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی معلومات کاپی کرنا مت بھولیں، جس سے وہ شخص بلیک میل کر رہا تھا یا جس سے اس نے آپ کی ذاتی معلومات پبلک کر دی ہوں۔

ایسی صورت حال میں متاثرہ شخص کے آس پاس موجود خاندان اور دوستوں کو اس کے ساتھ  کھڑا ہونا چاہیے۔ بلیک میلر کے ہاتھ میں ایک ہی بڑا ہتھیار ہے اور وہ ہے آپ کا خوف۔ یہ خوف کہ آپ بدنام ہوجائیں گے۔ جب والدین، خاندان والے اور دوست احباب ہی متاثرہ شخص کے ساتھ ہوں گے تو اس کا مقصد زائل ہوجائے گا اور وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔

آپ کو اس وقت ملزم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی طرف جانا ہے مگر یہ کیسے ہوگا؟

ٹیکنالوجی کے دور میں سائبر کرائم کے قوانین کے ہوتے ہوئے اگر بروقت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو ملزم کا بچ نکلنا آسان نہیں ہوتا۔

آپ کو بروقت قانونی مدد حاصل کرنی ہے۔ اس کے لیے ایف آئی اے کے سائبر سیل موجود ہیں جن تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ آپ ایف آئی اے سائبر کرائم کی آن لائن ویب سائٹ پر بھی رپورٹ درج کروا سکتے ہیں۔

مگر مناسب یہی ہے کہ اگر آپ اس شہر میں موجود ہیں جہاں ایف آئی اے کا دفتر ہے تو آپ کو دفتر چلے جانا چاہیے اور وہاں اپنا کیس درج کروانا چاہیے۔

جب آپ اپنا کیس درج کروا چکیں گے تو آپ کو ایک نمبر دیا جائے گا جس کو ڈائری نمبر کہتے ہیں اور وہ اس بات کی ضمانت ہوگا کہ آپ کا کیس تفتیش کے عمل کے لیے درج کر لیا گیا ہے۔

اس کے بعد آپ کو بیٹھ نہیں جانا بلکہ اپنے کیس کی معلومات لیتے رہنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کام کرنے والی سائبر سکیورٹی کی تنظیمیں 'ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن' اور 'ہمارا انٹرنیٹ' وغیرہ موجود ہیں جو آپ کی اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہیں۔ آپ کا اپنے کیس کو تکمیل تک پہنچانا معاشرے کو مزید جرائم سے بچانے میں مدد کرسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل