مسلمانوں کی نسل کشی: بوسنیا میں بیوائیں آج بھی ماتم کرتی ہیں

25 سال قبل بوسنیا کے علاقے سریبرینتزا میں سرب فوج نے آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کا قتل کیا تھا جسے بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

آج سے 25 سال قبل بوسنیا کے علاقے سریبرینتزا میں سرب فوج نے آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کا قتل کیا تھا جسے بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

بوسنیا میں 1992 سے لے کر 1995 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران تقریباً ایک لاکھ افراد کو قتل کیا گیا تھا، لیکن 11 جولائی 1995 کو سربیا کی فوج نے اقوام متحدہ کی جانب سے محفوظ پناہ گاہ قرار دیے گئے علاقے سریبرینتزا پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس دوران سرب فوج نے عورتوں، لڑکیوں اور بوڑھوں کو چھوڑ کر ایک ہی دن میں آٹھ ہزار مردوں اور لڑکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جبکہ خواتین کے ریپ کا حکم بھی دیا گیا۔

جو مرد اور لڑکے پناہ لینے کے لیے جنگل کی طرف بھاگے تھے انہیں بھی پکڑ کر گولی مار دی گئی اور بعدازاں انہیں اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔

آج بھی ان آٹھ ہزار افراد میں سے ایک ہزار لوگوں کی لاشوں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔

دوسری جانب سرب فوج کے لیڈر راتکو میلادک، جن کے احکامات پر یہ نسل کشی کی گئی تھی، کو 2017 میں انٹرنیشنل کریمنل ٹریبیونل نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں ’بوسنیا کا قصائی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

فاطمہ موجک بھی ان خواتین میں شامل ہیں، جن کے گھر کے مردوں کو اس نسل کشی میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

فاطمہ موجک (بائیں) کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے زندہ ہیں کہ ان کے بیٹےکی باقیات کا پتہ لگایا جاسکے۔ (اے ایف پی)


 فاطمہ اپنے شوہر اور تین بیٹوں کے لیے روزانہ دعا کرتی ہیں، لیکن وہ ہر بار اپنے بڑے بیٹے کے بارے میں سوچ کر تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں، جس کی لاش کے بارے میں انہیں کچھ نہیں معلوم۔

75 سالہ بیوہ نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا: 'مجھے اب بھی لگتا ہے کہ وہ کہیں زندہ ہے۔ میں دوسروں کے بارے میں جانتی ہوں، لیکن جب میں اس کے لیے دعا کرتی ہوں تو میرے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موجک کے شوہر اور ان کے دو بیٹوں کی لاشیں اجتماعی قبروں میں پائی گئی تھیں، جنہیں بعدازاں ایک یادگاری مرکز میں دفن کیا گیا تھا جہاں چھ ہزار چھ سو افراد کی تدفین ہوئی جبکہ دیگر 237 افراد کو دیگر مقامات پر سپرد خاک کردیا گیا۔

ایک ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں، جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

ساراییوو کے نواحی گاؤں میں مقیم فاطمہ موجک کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے زندہ ہیں کہ ان کے بیٹے کی باقیات کا پتہ لگایا جاسکے۔

آخری مرتبہ 84 اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سے گذشتہ دس سالوں سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

لاپتہ افراد کے انسٹی ٹیوٹ کے ترجمان ایمزا فاضل کہتے ہیں: 'جولائی 2019 کے بعد سے صرف 13 متاثرین کی باقیات ملی ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ نئی معلومات اور گواہوں کی کمی کی وجہ سے تلاشی میں خلل پڑا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا