مسلمان ٹرمپ کو مزید چار سال کیوں برداشت نہیں کر سکتے؟

یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جب تک ہم گروہ بندیوں میں تقسیم رہیں گے، ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کے لیے چندہ جمع کرنے میں مصروف رہیں گے، سیاسی لابینگ کی اہمیت نہیں جانیں گے، تو اسی طرح کے مسلم بین لگتے رہیں گے اور دوسری برادریوں کو نوازا جاتا رہے گا۔

ورجینا میں مسلمان خواتین مسجد جاتے ہوئے (اے ایف پی)

صدر ٹرمپ کی صدارت کا آغاز ہی مسلمانوں سے برملا نفرت کے اظہار کے اقدام سے ہوا۔ ’صدرِ نارنج‘ نے مروت و لحاظ کے تمام پردے چاک کرتے ہوئے تمام آئینی ضوابط توڑ دیے۔

مسلم بین لگانے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد تابڑ توڑ بیانات دیے جن میں کئی بار خود اپنے ہی بیانات کی تردید کی۔ پہلے پہل کہا گیا کہ یہ مسلم بین ہے۔ سابق میئر نیویارک روڈی جولیانی جو ٹرمپ کی اندھی حمایت میں حد سے آگے چلے گئے تھے، انہوں نے ’پروپیگینڈا چینل‘ فاکس نیوز پر برملا اعتراف کیا کہ انہی ٹرمپ حکومت کو مسلم بین کی تکمیل کے لیے قانونی نکات فراہم کیے تھے۔ 

اس اقدام سے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں شدید متاثر ہوئیں۔ سب حالتِ بین میں چلے گئے۔ دنیا کے اکثر ہوائی اڈوں پہ صفِ ماتم بچھ گئی۔ اس اقدام کی مخالفت میں ہزاروں لوگوں نے مسلمانوں اور پناہ گزینوں کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ جب عدالت نے اس کو  غیرآئینی قرار دے دیا تو ٹرمپ اور اس کے حواریوں نے فرمان جاری کیا کہ یہ تو فقط ’ٹریول بین‘ ہے!

کیلیفورنیا کی سینیٹر کاملہ ہیرس نے بیان دیا کہ ’اسے سمجھنے میں کوئی غلطی نہ کریں۔ اس ٹریول بین کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کار فرما ہے۔ اس کا نیشنل سکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اسلام دشمنی ہے۔‘

یہ وہی کاملہ ہیرس ہیں جنہیں صدارتی امیدوار جوزف بائڈن نے اپنی انتخابی مہم میں نائب صدر کے طور پر نامزد کیا ہے۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کاملہ ہیرس اس سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کی دوڑ میں جوزف بائڈن کی مخالف تھیں۔ ان کی نامزدگی ہر اعتبار سے تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ ان کے والدین کا تعلق بھارت اور جمیکا سے تھا۔ کاملہ ہیرس نے سیاست میں آنے سے قبل بحیثیت ڈسٹرکٹ اٹارنی کیلیفورنیا میں خدمات انجام دیں اور پھر وہیں سے اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ 

ان کی نامزدگی انڈین کمیونٹی کے لیے بہت خوش آئند ہے تاہم پاکستانی برادری کے اپنے تحفظات ہیں۔ اس کی چند اہم وجوہات ہیں۔ بائڈن نے اپنی مہم میں مودی کے حمایتیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کر رکھا ہے۔ اس وجہ سے بہت لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

بائڈن اور کاملہ دونوں امریکہ میں مقیم بھارتیوں کے ووٹ کی تعداد اور سیاسی مہم میں دی گئی رقم کی امداد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں پاکستانی کمیونٹی پر ترجیح دے رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین تعصبی سیاست نئی بات نہیں مگر اس سال امریکی صدارتی انتخاب میں یہ جھکاؤ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ 

تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم بیشتر مسلمان اور پاکستانی سیاسی شعور سے عاری ہیں۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جب تک ہم گروہ بندیوں میں تقسیم رہیں گے، ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کے لیے چندہ جمع کرنے میں مصروف رہیں گے، سیاسی لابی انگ کی اہمیت نہیں جانیں گے، تو اسی طرح کے مسلم بین لگتے رہیں گے اور دوسری برادری کو ترجیحات سے نوازا جاتا رہے گا۔ ہمیں اپنی ترجیحات اور سوچ بدلنی ہو گی۔ 

2010 کی مردم شماری کے مطابق امریکہ میں 70 لاکھ مسلمان ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ پاکستانی مسلمان ہیں جو رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ الیکشن 2016 میں ایک لاکھ سے بھی کم پاکستانیوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ جو کمیونٹی سیاسی عمل میں حصہ نہیں لیتی، اپنی ذمہ داریاں نہیں سمجھتی، سیاسی شعور اور ادراک نہیں رکھتی اسے سیاسی گلے شکوے کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔

سینیٹر ہیرس کا سیاسی سفر کسی آئینے کی طرح شفاف نہ سہی مگر ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ انہوں نے انڈیا کے کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرنے پر مودی اور ان کی حکومت پہ سخت تنقید کی تھی۔ انہوں نے کشمیریوں کے حقوق پہ بات کرتے ہوئے بیان دیا کہ اس مشکل وقت میں کشمیریوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ کاملہ نے بھارتی سفیر جےشنکر کے لیے سخت کلمات کہے جب انہوں نے امریکی کانگریس ممبر پراملہ جیا پال پر نکتہ چینی کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاملہ نے مودی اور ٹرمپ ریلی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مودی نے ہیوسٹن میں ہونے والی ریلی کے دوران اپنے محبوب صدر کو ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا مژدہ سنایا تھا جبکہ ابھی تک مودی نے کاملہ کی تاریخی نامزدگی پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

چنائی میں مقیم کاملہ کے چچا ڈاکٹر بالا چندرن کا کہنا ہے کہ کاملہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کبھی خاموش نہیں رہتی چاہے اس کے کیے انہیں بھارت پر کڑی تنقید ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

ڈیموکریٹک پارٹی بےشک مکمل طور پر خامیوں سے عاری نہیں مگر امریکی مسلمان ٹرمپ کے مزید چار سال برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ 

جیسا کہ سابق خاتون اول مشیل اوباما نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتے تو یہ اچھی طرح سے جان لیجیے کہ ٹرمپ کے اگلے چار سال اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوں گے۔

لہٰذا اپنا ووٹ کا حق استعمال کیجیے اس سے پیشتر کہ یہ حق آپ سے چھین لیا جائے۔

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم
جز حریفانِ ستم کس کو پکارا جائے
وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم
حاکمِ وقت کو مسند سے اتارا جائے

جون ایلیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ہناء علی میڈیکل کے شعبے سے منسلک ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے سیاسی امیدوار رہ چکی ہیں۔ ریاست ٹینیسی میں سمنر کاؤنٹی ڈیموکریٹ پارٹی کی صدر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ