کراچی کے ضلع کورنگی کے علاقے اللہ والا ٹاؤن میں چار منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔
حالیہ مون سون بارشوں کے باعث عمارت کی نچلی منزل پانی سے کافی متاثر ہو گئی تھی۔
کے ڈی اے ہائیٹس نامی عمارت گرنے سے اس کے اطراف کی دونوں عمارتیں بھی بے حد متاثر ہوئی ہیں۔
اس حادثے میں 14 سالہ لڑکا وقاص ہلاک بھی ہوا جو روزانہ کی طرح اس عمارت کے گراؤنڈ فلور پر واقع اپنے والد کی کباڑ کی دکان چلا رہا تھا۔
جناح ہسپتال کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی نے وقاص کی ہلاکت کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہیں مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔
سیمی جمالی کا مزید کہنا تھا کہ ملبے سے نکالے گئے زخمیوں کو جناح ہسپتال پہنچایا گیا جن میں 60 سالہ ایوب، 40 سالہ نشا، 18 سالہ نازش، 35 سالہ رانی اقبال اور 14 سالہ ریما اقبال شامل ہیں۔
ایس ایچ او کورنگی شہزادہ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ریسکیو آپریشن شروع ہونے کے بعد ملبے سے چھ زخمیوں کو نکال لیا گیا تھا جب کہ دو بچوں اور ایک خاتون کی تلاش پچھلے نو گھنٹوں سے جاری ہے۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے 14 سالہ وقاص کے والد محمد حنیف کا کہنا تھا کہ ’وقاص میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر میری کباڑ کی دکان میں کام کر رہا تھا جب عمارت گری۔‘
محمد حنیف نے بتایا کہ ’میں نے خود اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹے پر عمارت گرتے دیکھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دو دن قبل اس عمارت کا بلڈر ہمارے پاس آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اگر کوئی خطرہ ہے تو ہمیں بتا دو ہم دکان خالی کردیتے ہیں مگر اس نے کہا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں نیچے سے دو بنیادیں اٹھوا رہا ہوں اور نئی بنیادیں ڈلوا رہا ہوں۔‘
محمد حنیف کا کہنا تھا کہ ’ڈھائی سال سے میری دکان تھی یہاں۔ اگر بلڈر مجھے کہتا کہ یہاں خطرہ ہے تو میں دکان خالی کر دیتا مگر اس نے مجھے منع کر دیا۔ میرا ایک ہی بچہ تھا جو اس حادثے میں ہلاک ہو گیا۔‘
دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کورنگی کے نمائندگان جائے وقوعہ پر تو موجود نہیں تھے لیکن رابطہ کرنے پر ایس بی سی اے کورنگی کے ڈائریکٹر آصف رضوی نے بتایا کہ ’یہ عمارت غیرقانونی طور پر تعمیر ہوئی تھی۔ عمارت چائنا کٹنگ کر کے بنائی گئی تھی اور اس عمارت کا نہ ہی کوئی نقشہ تھا اور نہ اپروول پلان۔‘
اسی عمارت کی دوسری منزل کے رہائشی محمد ذوالفقار اپنے آفس میں ڈیوٹی پر تھے جب انہیں یہ خبر ملی کہ ان کے گھر کی عمارت منہدم ہوگئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کی شب تک ذوالفقار کی اہلیہ عائشہ، نو سالہ بیٹا ارسلان اور ایک دس سالہ بیٹی آن نو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔
ان کے مطابق عمارت گرنے سے آٹھ منٹ پہلے انہوں نے اپنی اہلیہ سے فون پر بات کی تھی۔ ان کی اہلیہ نے انہیں بتایا تھا کہ ’عمارت کی نچلی منزل پر مرمت کا کام کرنے کے لیے مستری آئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حالیہ بارشوں کی وجہ سے یہاں کافی پانی جمع ہو گیا تھا۔ عمارت کی بنیادوں اور دیواروں میں کافی نمی آگئی تھی۔ ہماری عمارت کا بلڈر اپنی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے ساتھ پہلی منزل پر ہی مقیم تھا، اس نے ہمیں کہا تھا کہ ہم عمارت خالی کر دیں تاکہ مرمت کا کام کروا لیا جائے لیکن ہم نے خالی نہیں کی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج بھی مستری آئے تھے، عمارت میں مرمت کرنے کے لیے جو میری بیوی نے مجھے فون پر بتایا تھا مگر مرمت کا کام شروع ہوتے ہی عمارت گر گئی۔‘
جمعے کی صبح جناح ہسپتال کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر سیمیں جمالی نے تصدیق کردی کہ محمد ذوالفقار کی اہلیہ عائشہ اور ان کے دونوں بچے ارسلان اور آن کی لاش کو گذشتہ رات مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔