منشا پاشا نے شوبز اور اسلام کے سوال پر کیا جواب دیا؟

ٹی وی اور فلم کی اداکاراؤں میں فرق بیان کرنے کی دیر تھی کہ اداکارہ منشا پاشا کو تلخ کومنٹس کا سامنا کرنا پڑا۔

تصویر: انسٹاگرام

پاکسان میں فلم انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہونے والی صنفی تفریق کے واقعات اکثر سرخیوں میں آتے رہتے ہیں۔ مارچ میں اداکارہ مہوش حیات کے تمغہ امتیاز کے لیے انتخاب پر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف تنقیدی پیغامات کی مہم اور پچھلے ہفتے ایک ٹوئٹر صارف کی منشا پشا پر ’اسلام کے قوانین‘ پر نہ عمل کرنے کی تنقید حالیہ دنوں میں ایسے ہی تعصب کی مثالیں ہیں۔ 

لیکن مہوش اور منشا جیسی شوبز کی ہستیاں ایسی بےجہ تنقید کے خلاف آواز آٹھانے میں آگے رہتی ہیں اور اپنا لوہا منونے میں کامیاب رہتی ہیں۔   

مہوش حیات کو جب تمغہ امتیاز کے لیے نامزد کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے ان پر غیر اخلاقی تنقید کرنی شروع کر دی اور عجیب و غریب قسم کے ایسے الزامات بھی لگائے گئے جو کسی بھی بیمار معاشرے میں خواتین سے منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ مہوش حیات نے دو تین مرتبہ ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دئیے اور آخر میں ایک انٹرویو میں کہا: ’مجھ پر تنقید کرنے والوں سے زیادہ تعداد مجھے مبارک باد دینے والوں کی ہے۔ ہمارے لوگ کسی کو بھی جج کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگوں کو تمغہ امتیاز کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اسی طرح زیب (ZAB) میڈیا فیسٹول میں پچھلے ہفتے اس وقت ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب اداکارہ حریم فاروق نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر کوئی مرد اداکار کسی گانے پر اکیلا ڈانس کرے تو کیا اسے بھی آئٹم نمبر کے نام سے یاد کیا جائے گا؟ سامنے موجود ناظرین میں سے کوئی بھی اس سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نظر نہیں آیا۔ مذکورہ سیشن آج کل کے ذرائع ابلاغ میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے منعقد کیا گیا۔

سیشن میں ہوئی گفتگو کا یہی سلسلہ جب دراز ہوا تو منشا پاشا تک جا پہنچا۔ فلم لال کبوتر کی ادکارہ نے جب زیب میڈیا فیسٹول میں خواتین کی فلموں میں نمائندگی پر بات کی تو ان کے بیان پر کافی لے دے شروع ہو گئی۔ منشا پاشا کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں فلمیں اپر مڈل کلاس والوں کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مہنگے ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی فرق کی وجہ سے ٹی وی کی نسبت فلم میں کام کرنے والی خواتین زیادہ ترقی پسند (ماڈرن/پروگریسیو) ہوتی ہیں۔

اس فرق کو بیان کرنا تھا کہ وہ کمپیوٹر جنگجوؤں کے نرغے میں آ گئیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا، ’منشا پاشا، میں جانتا ہوں کہ آپ اس کانفرنس میں عثمان خالد بٹ اور حریم فاروق کے ساتھ تھیں۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو اسلام کے قوانین کو توڑتے ہیں، جیسا کہ ہر شوبز والا کر ہی رہا ہوتا ہے، تو ان کے بارے میں ہمیشہ ایسی باتیں کی جاتی رہیں گی۔ انہیں ہمیشہ جھٹلایا جائے گا اور انہیں کبھی عوامی قبولیت حاصل نہیں ہو گی۔‘

 

منشا پاشا نے بغیر وقت ضائع کیے انہیں یوں جواب دیا: ’میرے خیال میں جو لوگ ہمیں فالو کرتے ہیں اور ہماری پوسٹوں پر جواب دیتے ہیں، وہ بھی گناہ گار ہیں۔ میں انہیں کہنا چاہوں گی کہ آپ ہمیں ان فالو کریں اور اپنی آخرت کو بچائیں۔ خدا آپ پر رحمت کرے۔‘

صحافی منال فہیم خان کا کہنا تھا کہ یہ مثالیں ہمیں واضح دکھاتی ہیں کہ جنسی ہراسانی کے معاملات کس طرح مرد اور عورت کے مابین ذاتی لڑائیوں میں بدلتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کی بجائے یہ مسائل صنفی حمایت کی نظر ہو جاتے ہیں۔

ماضی قریب میں ادکارہ منشا پاشا نے ایک بیان حرا مانی کے خلاف اس وقت دیا تھا جب اپنے انٹرویو میں حرا نے اپنی شادی ہونے کے واقعات بیان کیے تھے کہ انہوں نے کیسے اپنے منگیتر کو دھوکا دیا اور کس طرح اپنی دوست کو بوائے فرینڈ کو اپنا شوہر بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ شوبز انڈسٹری کی خواتین کو بہتر طریقے سے بات کرنی چاہئیے تاکہ وہ ایک دوسرے کی نمائندگی بہتر انداز میں کر سکیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن