تقریر تو اچھی ہو گئی۔۔۔

اس ملک میں غریب، غریب ترین ہوتا چلا جا رہا ہے اور امیر مزید امیر ترین۔ طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے جو نظام کی آخری بربادی کی پہلی دلیل ہے۔

(اے ایف پی)

ایک تقریر کا ہنگامہ گذشتہ اتوار سے جاری رہا اور ایک تقریر کا چرچا آئندہ اتوار تک برقرار رہے گا۔

ہیش ٹیگز بنے تھے، ہیش ٹیگز بنائے جایئں گے۔ ٹرینڈز چلے تھے، ٹرینڈز چلائے جایئں گے۔ خوب شورو غوغا ہوگا، تحسین کے وہی ڈونگرے برسائے جایئں گے، اپنے اپنے لیڈروں کی وہ تمام خصوصیات گنوائی اور جتلائی جاتی رہیں گی جو آج تک نہ دنیا نے کسی ذی روح میں دیکھیں نہ رہتی دنیا آئندہ کبھی سنے گی۔ ایک طرف سے تعریف و توصیف تو دوسری طرف سے انکاروپھٹکار۔ بتلایا جاتا رہا ہے؟ جتلایا جاتا رہے گاکہ کس طرح بس ایک ہی شخصیت قوم کے تمام دکھوں کی مسیحا ہے اور کس طرح بس ایک ہی تقریر سے اس دکھیاری قوم کے تمام دلدر دور ہو جاویں گے۔

حقیقت تو مگر حقیقت ہے کوئی کتنا ہی انکار کرے، جھٹلانے کی کوشش کرے۔ اور قوم کی حقیقت تو یہ ہے کہ دو وقت چھوڑ ایک وقت کی روٹی کا کوئی جھوٹا موٹا ہی بندوبست بھی یہ تقریر نہیں کر پائے گی۔

عوام کو دیکھیں تو وہ غربت مہنگائی بی یقینی بے بسی کی ظالم چکی میں پستے ہی چلے جا رہے ہیں۔

اس ملک میں غریب، غریب ترین ہوتا چلا جا رہا ہے اور امیر مزید امیر ترین۔ طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے جو نظام کی آخری بربادی کی پہلی دلیل ہے۔

نہ حکومت کو غریب کا احساس نہ اپوزیشن کو عوام کی پرواہ۔ روزانہ کی بنیاد پر غریب کے لیے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، جینا دوبھر ہو گیا، لیکن اپوزیشن محض جلسے جلوسوں پر اکتفا کرے گی۔

غریب کی زندگی آج کل مشکل میں ہے، اپوزیشن احتجاج کرے گی اگلے سال جنوری میں۔ حکومت کو دیکھیے تو لگتا ہے جیسے سیاسی عمر خضر کہیں سے لکھوا کر لے آئے ہیں وگرنہ جتنے غریب کش فیصلے روزانہ کی بنیاد پر کئیے ہیں، ووٹ مانگنے کے لیے جانا باعث شرم و حیا ہی ہوتا۔

حال ہی میں دوائیوں کی قیمت میں جو ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے وہ بیچارے غریب عوام کےلیے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہے۔ اس قدر ہولناک مہنگائی اور وہ بھی صحت جیسے شعبے کےلیے ۔۔۔ اربوں کھربوں کا سکینڈل ہے یہ ادویات کی مہنگائی کا۔ کون کون مال بنا رہا ہے کون کون ملوث ہے، مافیا کے آگے گھٹنے کس نے ٹیک دیے؟ کون کتنا کمیشن کھا رہا ہے؟ سچائی کھل جائے تو حکومت لرز جاۓ ۔۔۔ لیکن یہاں غریب کی پرواہ ہی کسے ہے۔ ووٹ نہ تو غریب عوام سے لیا نہ جوابدہی غریب عوام کو ہے۔

اپوزیشن ہے تو محض روایتی بیانات کےلیے ۔ وہی چند ٹویٹس وہی چند ٹکرز۔ اللّٰه اللّٰه خیر صلا۔

خدا بھلا کرے ٹویٹر کا کہ ہماری اپوزیشن کے بارے میں پتہ تو چلتا رہتا ہے کہ عوام کے لیے کتنی فکرمند ہے۔

حکومت نے تو عوام کا جینا اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ اب کم از کم مرنا آسان ہے۔ دوائیں اتنی مہنگی کر دی ہیں کہ نہ دوا خرید سکے گا نہ زندہ رہے گا اور غریب نے زندہ رہ کر کرنا بھی کیا ہے۔

کھانے کو روٹی نہیں، آٹا اس قدر مہنگا ۔۔۔ سبزی مہنگی دال مہنگی گوشت پہنچ سے باہر۔۔۔ پھل فروٹ تو خیر  اب لگژری ہو گئی، امیروں کے چونچلے ہو گئے۔۔۔ چینی مہنگی 'ترین' ہوتی چلی جا رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔

حد تو یہ ہے کہ معصوم بچوں کے لیے دودھ اور سیریل تک مسلسل مہنگے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور جو بچے دودھ ٹھوس غذا نہ ملنے پر روئیں اور روتے چلے جائیں یہاں تک کہ روتے روتے مُوت دیں تو پیمپر بھی مہنگے۔۔۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد آ گئی وہ غریب بستی کی دادی اماں جو اپنا پوتا اٹھاۓ ایک وائرل ویڈیو میں (مگر غیر پارلیمانی الفاظ میں) بچوں کے پیمپر مہنگے ہونے کی دہائیاں دیتی چلی جا رہی ہے اور وزیر اعلی وزیر اعظم سے اپیل کر رہی ہے کہ ایک دھوتی ہی دے دو کہ پوتے کی صفائی کر سکیں۔۔۔ (غیر پارلیمانی الفاظ حذف) ۔۔۔ سوچتی ہوں ہمارے حکمران یوں تو غریب عوام سے دور ہی رہتے ہیں اور دور رکھے بھی جاتے ہیں، اور اگر کبھی عوامی دوروں پر نکل بھی جایئں تو مقامات بھی سیلیکٹڈ، عوام سے گھلنا ملنا بھی سلیکٹڈ، کہ کہیں عوامی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑ جاۓ۔۔۔

لیکن سوچتی ہوں کیا غریب عوام کی وہ وائرل ویڈیوز جو پورا ملک دیکھ لیتا ہے وہ بھی اونچی اونچی دیواروں میں مقید حکمرانوں کے سمارٹ فونز تک نہیں پہنچتی ہوں گی یا 'دیکھ کر ڈیلیٹ' کر دیتے ہوں گے۔۔۔؟؟

وگرنہ اتنا تو پتہ چلتا رہتا ہو گا کہ ہر دوسرے ہفتے بجلی پٹرول کی قیمت بڑھانے سے عوام پر کیا گزرتی ہے۔ ایک طرف وہ وعدے کرنا کہ مشکل وقت گزر گیا لیکن دوسری طرف سردیاں آتے آتے عوام کو بتانا کہ گیس نہیں ملے گی۔

نہ جانے پاکستان کے عوام کا اچھا وقت اب کب آۓ گا۔۔۔ فی الحال مستقبل قریب میں تو اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اس قدر بے یقینی ہے مایوسی ہے حالات کی تنگی ہے کہ عوام ذہنی مریض بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر فرد آنے والے وقت سے پریشان ہے۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے رکئے ۔۔۔اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے۔۔۔ مسیحائی کی امید بندھ رہی ہے۔۔۔مجھ اپنی تحریر یہیں پر روکنی ہو گی کیونکہ تقریر کا وقت ہو گیا ہے۔ کم از کم تقریر تو اچھی ہو گی۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر