بریگزٹ: یورپی یونین برطانیہ کو 31 اکتوبر تک مزید مہلت دینے پر متفق

رات گئے چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات میں یورپی قائدین برطانیہ کو نئی مہلت دینے پر متفق ہوئے۔ اس دوران جون میں سربراہ اجلاس کا بھی امکان ہے جس میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔

ٹریزامے نے چند ہفتے قبل ہی ارکان  پارلیمان کو بتایا تھا کہ وہ بطور وزیراعظم بریگزٹ کو 30 جون سے آگے لے جانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور مذاکرات کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی مستعفی ہوجائیں گی۔ فائل تصویر: اے ایف پی

یورپی یونین کے رہنما برطانیہ کو بریگزٹ سے متعلق 31 اکتوبر تک مزید مہلت دینے پر متفق ہوگئے ہیں۔

اس طرح برطانوی وزیراعظم ٹریزامے موسم سرما تک اپنی وزارت عظمیٰ برقرار رکھنے میں کامیاب ہونے کے بعد قدامت پسند جماعت میں اپنے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے تیار ہیں جبکہ اس دوران بریگزٹ پر عملدرآمد میں طویل التوا سے متعلق معاملات بھی انہی کی ذمہ داری ہوگی۔

ٹریزامے نے چند ہفتے قبل ہی ارکان  پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ وہ بطور وزیراعظم بریگزٹ کو 30 جون سے آگے لے جانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور مذاکرات کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی مستعفی ہوجائیں گی۔ اس طرح ان کے حریفوں کو موسم گرما میں ٹوری جماعت کی قیادت کے مقابلے کی تیاری کی تحریک ملی۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدہ: یورپی یونین کا برطانیہ کو اس سال کے آخر تک مہلت دینے پر غور

بدھ (10 اپریل) کی رات یورپی یونین رہنماؤں کا اجلاس ہوا تاکہ بریگزٹ کی طویل شق 50 پر عملدرآمد کی مدت میں مزید توسیع کا فیصلہ کیا جاسکے۔

رات گئے چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات میں یورپی قائدین بریگزٹ پر 31 اکتوبر تک نئی مہلت دینے پر متفق ہوگئے۔ اس دوران جون میں سربراہ اجلاس کا بھی امکان ہے جس میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔

ٹریزا مے نے متوقع طویل توسیع کے اثرات کے حوالے سے تاثر زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ وہ بدھ کی شام کو اجلاس کے لیے پہنچیں اور انہوں نے رپورٹرز کو بتایا کہ اہم بات توسیع ہے، جس کی بدولت ہمیں یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کی توثیق کا موقع ملے گا، توسیع کی مدت اہم نہیں ہے۔

دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی کے ذرائع کے مطابق ٹریزامے کا وزارت عظمیٰ چھوڑنا کسی مخصوص تاریخ کی بجائے بریگزٹ سے متعلق معاہدے کی منظوری سے جڑا ہوا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا 30 جون کی تاریخ بطور وزیراعظم ٹریزامے کے لیے اب بھی سرخ لکیر ہے؟ برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کے ذرائع نے جواب دیا کہ وزیراعظم اس بات کو سمجھتی ہیں کہ ٹوری جماعت کو درست طور پر احساس ہے کہ بریگزٹ پر مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے پارلیمانی رفقائے کار سے اس بات کا وعدہ کیا ہے، جس پر وہ قائم ہیں۔

مذاکرات کے اختتام پر وزیراعظم ٹریزامے نے بریگزٹ معاملے میں تاخیر کی ذمہ داری ایک بار پھر برطانوی ارکان پارلیمنٹ پرڈال دی۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’گذشتہ تین ماہ میں، میں نے تین بار یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ووٹ دیا۔ اگر ارکان پارلیمنٹ کی ضروری تعداد نے جنوری میں ان کے ساتھ مل کر ووٹ دیا ہوتا تو اب تک ہم  یورپی یونین سے باہر ہوتے۔‘

یہ بھی پڑھیں:’شکست خوردہ‘ وزیر اعظم کی بریگزٹ بچانے کی آخری کوشش

دوسری جانب لندن میں ٹریزامے کے ناقدین پہلے ہی مقابلے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ان کی قیادت سابق ٹوری رہنما آئن ڈنکن سمتھ کر رہے ہیں جنہوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر وزیراعظم بریگزٹ کے معاملے میں کسی طویل مہلت کے ساتھ واپس آئیں تو انہیں وزارت عظمیٰ سے الگ کردیا جائے۔

انہوں نے چینل 4 نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’انہیں یہ اچھا تو نہیں لگتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم بریگزٹ کے معاملے میں سال یا نوماہ کی ہی مدت قبول کرلتے ہیں تواس کا مطلب ہے کہ ہم  اپنے تمام چہرے پرانڈہ لگا لیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے وقت ایسا ہے کہ ناخوشگوار بات کو بھی قبول کرلیں اور کہیں کہ دیکھو! ہم مزید ایسا نہیں کرسکتے۔ ہمیں تبدیلی لانی ہوگی۔‘

جب انہوں نے یہ کلمات کہے، عین اس وقت وزیراعظم ٹریزامے برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں سے خطاب کر رہی تھیں۔

 آئن ڈنکن سمتھ کا کہنا تھا کہ ’تمام صورت حال ایک کار کے حادثے کی طرح ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ کابینہ کے ارکان وزیراعظم سے ملیں اور کہیں کہ موجودہ صورت حال جاری نہیں رہ سکتی اورمجھے ڈر ہے کہ واقعی صورت حال اس طرح جاری نہیں رہے گی۔‘

دوسری جانب وزیراعظم کے اتحادی ان کی حمایت میں بول پڑے۔ وزیرانصاف ڈیوڈ گوک نے کہا کہ ٹوری جماعت کا قائد تبدیل کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ بطورملک، جس آخری چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ قیادت کا انتخاب ہے۔

مسٹرگوک نے بی بی سی ریڈیو 5 لائیو کے ایماربارنیٹ پروگرام میں کہا کہ اگروزیراعظم ٹریزامے کے جانے میں ہی ملک کا فائدہ ہے تو انہیں چلے جانا چاہیے لیکن اگر ان کے وزیراعظم رہنے میں ملک کا مفاد ہے تو انہیں وزارت عظمیٰ پر برقراررہنا چاہیے۔ وہ وہی کریں گی جو انہیں ملک کے لیے درست لگتا ہے۔

گذشتہ رات برسلز میں سربراہ اجلاس سے پہلے یورپی یونین کے رہنماؤں نے اشارہ دے دیا تھا کہ وزیراعظم ٹریزامے کو بریگزٹ کے معاملے میں 9 یا 12 ماہ کی مہلت دینے کا سوچ رہے ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے تجویز دی تھی کہ بریگزٹ معاملے میں مہلت کی حتمی تاریخ لچکدار ہوسکتی ہے جو برطانوی پارلیمنٹ میں یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کی منظوری کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔

فرانس کے دباؤ کے پیش نظر یورپی کونسل 31 اکتوبرکی نسبتاً مختصرمدت کی مہلت پر متفق ہوئی ہے۔ اس دوران جون میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔ فرانس نے 2020 تک کی مہلت کی شدید مخالفت کی تھی۔

مزید پڑھیں: کیا بریگزٹ کی گونج برطانیہ کے حکومتی حلقوں سے باہر بھی سنائی دیتی ہے؟

موسم گرما کے آغاز پر صورت حال پر نظرثانی کے بارے میں توقع ہے کہ اس میں مئی کے یورپی انتخابات سے پہلے اور بعد میں برطانیہ کے تعاون کا جائزہ لیا جائے گا۔

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے رات دو بجے پریس کانفرنس میں کہا: ’مجھے اپنی بات برطانوی دوستوں کے لیے اس پیغام کے ساتھ ختم کرنے دیں کہ بریگزٹ کے حوالے سے دی گئی مہلت توقع کے مقابلے میں قدرے مختصر ہے۔ اس کے باوجود مسئلے کا بہترین ممکنہ حل تلاش کرنے کے لیے کافی ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ وقت ضائع نہ کیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کسی چیزکے کچھ حصے کا مالک ہونا بہترہے، بجائے اس کے آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔

بریگزٹ کے حوالے سے 31 اکتوبرتک کی مہلت کے ساتھ ہی یورپی کمیشن کے موجودہ صدر ژاں کلاڈ جنکرکی مدت بھی ختم ہوجائے گی۔

یورپی  کونسل کے صدرڈونلڈ ٹسک کے ساتھ کھڑے ژاں کلاڈ جنکرنے مذاق کیا کہ ’جوفیصلہ آج رات ہم نے کیا وہ اسے پسند کرتے ہیں کیونکہ حتمی تاریخ 31 اکتوبر مقررکی گئی ہے۔ یکم نومبر کو انہیں اپنا کام چھوڑنا ہوگا، اس لیے میرا خیال ہے کہ بریگزٹ کے معاملے میں رات بھر جاری رہنے والا کوئی اجلاس نہیں ہوگا، لیکن اگر ایسا ہوا تو انہیں آدھی رات کو اس اجلاس سے جانا ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ