ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے عمر شیخ کی رہائی روک دی

عدالت عظمیٰ نے آج سماعت کے دوران مقتول امریکی صحافی کے والدین کی فریق بننے کی استدعا بھی منظور کرلی۔

2002 کی اس تصویر  میں ڈینیئل پرل کے قتل کے مرکزی ملزم شیخ عمر کو عدالت لے جایا جار ہے (اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے پیر کو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کیس میں سندھ حکومت کی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے عمر شیخ سمیت تمام ملزمان کو آئندہ ہفتے تک رہا کرنے سے روک دیا۔

عدالت عظمیٰ نے مقتول کے والدین کی فریق بننے کی استدعا بھی منظور کرلی۔ آج جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملزمان کی بریت کے خلاف سندھ حکومت کی اپیل پر سماعت کی، جس کے دوران سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے۔

اپنے دلائل میں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 'استغاثہ کے گواہ ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس نے ڈینیئل پرل کو اتارا تو عمر شیخ نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا لیا، اس کے بعد قتل تک ڈینیئل پرل کو کبھی نہیں دیکھا گیا جبکہ ٹیکسی ڈرائیور نے عمر شیخ کو شناخت پریڈ کے دوران پہچان لیا تھا۔'

جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ 'ڈینیئل پرل کی تو لاش بھی نہیں ملی، ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کیسے پہچانا؟ ٹیکسی ڈرائیور کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کی گاڑی میں سوار شخص کا نام ڈینیئل پرل ہے؟' جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 'ٹیکسی ڈرائیور نے تصاویر دیکھ کر ڈینیئل پرل کو پہچانا۔'

جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ 'مقتول ڈینیئل پرل کی لاش نہیں ملی، پوسٹ مارٹم نہیں ہوا، پھر عمر شیخ پر قتل کیسےثابت ہوا؟' اس پر سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ امریکی صحافی کا اغوا ثابت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کو ملزمان کو بری کرنے کی بجائے دوبارہ ٹرائل کا حکم دینا چاہیے تھا۔

جسٹس قاضی امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 'واقعاتی شواہد کے لیے بھی تمام کڑیوں کا آپس میں ملنا لازمی ہے، ایک کڑی بھی ٹوٹ گئی تو آپ کا کیس ختم ہوجائے گا، یہ بتائیں کہ ٹیکسی ڈرائیور نے عمر شیخ کو کیسے پہچانا؟'

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 'ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس نے مجسٹریٹ کے سامنے شناخت پریڈ میں ملزمان کی شناخت کی۔' اس پر جسٹس قاضی امین نے کہا 'حکومتی کیس کی بنیاد ہی ٹیکسی ڈرائیور کا بیان ہے۔'

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سازش، تاوان اور دیگر تمام الزامات میں ملزمان بری ہوئے۔ لگتا ہے صرف اغوا کے جرم میں ہائی کورٹ نے سزا دے کر حجت تمام کی۔ ڈینیئل پرل کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی ہے لیکن فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔'

سندھ حکومت کے وکیل نے مزید بتایا کہ 'مقدمے میں کل 23 گواہ ہیں، ایک گواہ آصف محفوظ نے راولپنڈی کے اکبر انٹرنیشنل ہوٹل میں ڈینیئل پرل اور عمر شیخ کی ملاقات کروائی۔ ہوٹل کے ریسیپشنسٹ عامر افضل نے عمر شیخ کو شناخت پریڈ میں پہچانا اور دونوں کی ملاقات کی تصدیق کی۔'

اس موقعے پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ سازش کہاں ہوئی ثبوت فراہم کریں۔ آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سازش سے متعلق آپ کے پاس کوئی جواب نہیں۔' اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 'بہت سی چیزیں پس پردہ بھی چل رہی تھیں۔ عمر شیخ جب ڈینیئل پرل سے ملے تو اپنا نام بشیر بتایا۔ عمر شیخ نے پہلی ملاقات میں نام اس لیے غلط بتایا کیونکہ ان کے ذہن میں کچھ غلط چل رہا تھا۔'

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 'یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ قتل کا فیصلہ قتل کرنے سے ایک لمحہ پہلے ہوا ہو۔' فاروق ایچ نائیک نے تائید کی کہ 'یہ درست ہے، پہلی سازش قتل نہیں بلکہ تاوان لینا تھا۔'

فاروق ایچ نائیک نے مزید بتایا کہ '23 جنوری، 2002 کو ایک ای میل کی گئی، جس میں ڈینیئل پرل کے اغوا برائے تاوان کا ذکر موجود ہے۔ ملزم عمر شیخ کو 13 فروری، 2002 کو گرفتار کیا گیا۔ 22 اپریل، 2002 کو ملزمان پر چارج فریم ہوا اور مرکزی مجرم عمر شیخ نے عدالت میں اعتراف جرم کیا۔'

سندھ حکومت کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمر شیخ سمیت تمام ملزمان کو آئندہ ہفتے تک رہا کرنے سے روک دیا جبکہ مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت سات اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کی ضمانت کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے تمام ملزمان کو دی گئی سزائیں بحال کی جائیں۔

دوسری جانب رواں برس دو مئی کو ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرکے استدعا کی تھی کہ ملزمان کی رہائی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا دو اپریل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس معاملے پر صوبائی حکومت نے اپیل کا عمل مکمل ہونے تک تمام ملزمان کو نقص عامہ کے قانون کے تحت تین ماہ کے لیے نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ڈینیئل پرل کون تھے؟

امریکی تحقیقاتی صحافی ڈینئیل پرل اخبار وال سٹریٹ جرنل سے منسلک تھے اور 2002 میں شدت پسندوں سے متعلق خبر پر کام کرنے کے لیے پاکستان آئے، تاہم انہیں کچھ عرصے بعد کراچی سے اغوا کر لیا گیا تھا۔

ان کے اغوا کے بعد چند مطالبات کیے گئے، بعدازاں انہیں دوران حراست قتل کر دیا گیا۔ پرل کو مارنے سے قبل مجرموں نے ان کی ویڈیو جاری کی تھی، جس میں انہیں زنجیروں میں جکڑا دکھایا گیا۔ اغوا کے ایک ماہ بعد ان کی لاش ملی، جو امریکا کے حوالے کر دی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان