’دہشت گرد کسی بھی ریاست کے جائز مفادات کے لیے کام نہیں کرتے‘

افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس گروہ کے خلاف ہیں جو کسی بھی ملک کے لیے خطرہ ہوں، چاہے ہمسایہ ملک ہو یا نہ ہو۔

افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس گروہ کے خلاف ہیں جو کسی بھی بھی ملک کے لیے خطرہ ہوں، چاہے ہمسایہ ملک ہو یا نہ ہو۔

اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ گذشتہ دنوں تین روزہ دورے پر اسلام آباد آئے تھے جہاں انہوں نے صدر عارف علوی، وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کیں۔

عبداللہ عبداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’مختلف ناموں والے دہشت گرد گروہ کسی بھی ملک اور ریاست کے جائز مفادات کے لیے کام نہیں کرتے۔‘

پاکستان کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ پاکستانی طالبان اس پر ’حملوں‘ کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، اس پر عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو شہری کی حیثیت سے اور دوسری اعلیٰ مصالحتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم ہر گروپ کے خلاف ہیں چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو، ہم ہر دہشت گرد گروپ کے خلاف ہیں جو کسی بھی ملک کے لیے خطرہ ہیں، وہ ہمسایہ ملک ہو یا نہ ہو۔‘

عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد گروپس کے اپنے اہداف ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ ریاستی اداروں کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا اعلیٰ سطحی دورہ دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے کے بعد ہوا ہے جس سے مبصرین کابل اور اسلام آباد کے درمیان پگھلتی برف تصور کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ امریکہ اور افغانستان کا اس بات کا معترف ہونا کہ پاکستان نے بین الافغان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

’اس خطے میں پاکستان اور افغانستان دونوں یہ دیکھ چکے ہیں، اس حوالے سے ہمیں کچھ بھی سکھانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہی میرا کامل یقین ہے اس سے قطع نظر کہ گذشتہ کل، آج اور آنے والے وقتوں میں میری پوزیشن کیا ہے لیکن صورت حال یہی ہے اور یہی رہے گی۔‘

انہوں نے حالیہ بین الافغان مذاکرات میں پاکستانی سہولت کاری کے حوالے سے کہا کہ ’میں مثبت رویے کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔‘

’میں بھی اعتماد کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کوششیں کرتا رہوں گا، اور ہمسایہ ملک کے ساتھ پرامن، دوستانہ ماحول میں مل کر رہنے کے لیے کام کرتا رہوں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں افغان طالبان اور حکومت کے درمیان شروع ہونے والے بین الافغان مذاکارت کو منطقی انجام تک لے جانے کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے سیاسی اثرورسوخ کے بارے میں سوال پر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ’ہم سب کو اکھٹے کام کرنا ہوگا کیونکہ یہ صرف ایک شخص کا کام نہیں ہے۔‘

’اشرف غنی ملک کے صدر ہیں اور وہ ان مذاکرات کو جس طرح سے دیکھتے ہیں اس کا اثر صورت حال پر ضرور ہو گا، لیکن قومی مصالحتی شوریٰ بھی موجود ہے۔‘

عبداللہ عبداللہ کے مطابق ’ہمارا کام اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ ان کی (اشرف غنی) آرا سمیت حکومت میں شامل افراد، حزب اختلاف اور ان لوگوں کی آرا بھی جو حکومت میں ہیں اور نہ ہی حزب اختلاف میں ہیں، سول سوسائٹی، عام افراد اور مجموعی طور پر معاشرے کی آرا کو ہمیں پیچھے رکھنا ہوگا تاکہ جلد نتائج حاصل کیے جا سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارا کام ہے اور انہیں (طالبان) کو خود دیکھنا ہو گا کہ انہیں اپنے اندر کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

افغان رہنما کا کہنا تھا کہ دورہ پاکستان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان نئے مذاکراتی دور کا آغاز کرنا ہے۔ ’ہمیں  آگے بڑھ کر تجارت، کاروبار اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا۔ معیشت کی بہتری کے لیے دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو ایک ہی وقت میں کرونا، معیشت، دہشت گردی اور مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا