حکومت سے مذاکرات کامیاب، کوئٹہ میں جاری ہزارہ برادری کا دھرنا ختم

دھرنے کے رہنما طاہر خان ہزارہ سے ہونے والے مذاکرات میں حکومتی وفد نے ہزارہ برداری کے تحفظ کے لیے اقدامات مزید بہتر بنانے کی یقین دہانی کروائی، جس کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

کوئٹہ حملے کے بعد ہزارہ برادری نے مغربی بائی پاس پر  چار روز سے دھرنا دے رکھا تھا، جن میں خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک تھی۔ فائل تصویر: اے ایف پی

حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہزارہ برادری نے کوئٹہ میں چار روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا، تاہم اس سلسلے میں کسی قسم کا تحریری معاہدہ یا اسٹامپ پیپر پر دستخط نہیں کیے گئے۔

کوئٹہ کی ہزار گنجی فروٹ منڈی میں 12 اپریل کو ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے دس افراد سمیت 20 افراد کی ہلاکت اور 40 کے زخمی ہونے کے بعد ہزارہ برادری نے مغربی بائی پاس پر احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا، جن کا موقف تھا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہر بار حکومت انہیں بس تسلیاں ہی دیتی ہے۔ 

دھرنے کے شرکا نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان خود آکر مظاہرین کی بات سنیں۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکہ: ہزارہ برادری کے آٹھ افراد سمیت 20 ہلاک

پیر کی شب وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری، رکن صوبائی اسمبلی لیلیٰ ترین اور دیگر اعلیٰ حکام پر مشتمل حکومتی وفد ہزارہ برداری کے دھرنے میں پہنچا اور مظاہرین سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی۔

دھرنے کے رہنما طاہر خان ہزارہ سے ہونے والے مذاکرات میں حکومتی وفد نے ہزارہ برداری کے تحفظ کے لیے اقدامات مزید بہتر بنانے کی یقین دہانی کروائی، جس کے بعد طاہر ہزارہ نے وزیر مملکت شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ دھرنا ختم کرنا کا اعلان کردیا۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا: ’یہ ہماری روایت نہیں کہ ہم کسی کو آنے سے روکیں، حکومت کو مسائل سے آگاہ کرنا ہمارا حق ہے۔ اس سے قبل بھی ہمیں سیکورٹی کی فراہمی کی یقین دہانیاں کرائی جاچکی ہیں۔‘

طاہر خان کا مزید کہنا تھا: ’آئین پاکستان نے ملک کے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، ہمارا مطالبہ غیر آئینی نہیں، ملک اس وقت خاموش دہشت گردی کا شکار ہے، ہم حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔‘

دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ’ہمارا یہاں آنے کا مقصد امن کا پیغام پہنچانا ہے، ہزارہ کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘

انہوں نے ہزارہ برادری کو یقین دلایا: ’ہم آپ کو کسی بھی جگہ پر تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہم یہاں سیاست کرنے نہیں آئے بلکہ آپ کا دکھ  بانٹنے آئے ہیں اور آپ کے جائز مطالبات پر عملی اقدامات کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ میں خود کش حملے کے دو روز بعد بھی ہزارہ برادری کا دھرنا جاری

اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس شہر اور صوبے کو محفوظ بنائیں، بلوچستان ہمارا گھر ہے اور گھر والوں کے غم سے بڑھ کر کوئی غم نہیں ہوتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’قیام امن کے لیے اس طرح کی سنجیدگی ماضی میں نہیں ملتی جو موجودہ حکومت دکھا رہی ہے۔ ہزارہ کمیونٹی، اس شہر اور صوبے نے بہت مشکل حالات دیکھے ہیں، ہم ہزارہ کمیونٹی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘

جام کمال نے کہا کہ ’چیزوں کو درست کرنے میں وقت لگتا ہے، لاپتہ افراد سمیت تمام مسائل کے حل میں ہماری حکومت سنجیدہ ہے، ہمیں پشتون، بلوچ، ہزارہ یا مہاجر سے بلند ہوکر امن کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دھرنے کے شرکا نے مسلمان پاکستانی شہری ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ ہم سب ایک خاندان، ایک گھر کی مانند ہیں اور دہشت گرد عناصر کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔

اس موقع پر رکن اسمبلی لیلیٰ ترین نے کہا: ’میں اپنے بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہوں۔ بلوچستان کا رواج ہے کہ جہاں خاتون صلح کے لیے جاتی ہے وہاں صلح کر لی جاتی ہے، میں عزت رکھنے پر ہزارہ برداری کی مشکور ہوں۔‘

بلوچستان میں گذشتہ 20 سالوں کے دوران فرقہ وارانہ واقعات میں اب تک ہزارہ برادری کے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات سے خوفزدہ ہوکر سینکڑوں لوگ ملک کے دیگر شہروں یا بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان