دلچسپ سیاسی گیم پلان

ویسے تو مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی موجودہ قوت اور طاقت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہی مستعار لے کر استعمال کی ہے لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی کتنی جماعتیں کتنی دیر تک مسلم لیگ (ن) کی اِس جارحانہ قوت کا ساتھ دے پاتی ہیں۔

اس کھینچا تانی میں لکیر گہری ہوتی ہے، مٹنے لگتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے اس کا انحصار فزکس کے اس قانون پر ہے کہ طاقت کا استعمال کس قدر اور کتنی دیر تک کیا جاتا ہے (اے ایف پی)

سیاست اور تعلقات عامہ کے طالب علموں کے لیے ’ماخت پولیٹیک‘ (machtpolitik) کی اصطلاح نئی نہیں ہوگی۔ یہ جرمن زبان کی اصطلاح ہے اور عام فہم انگریزی میں اس کا ترجمہ پاور پولیٹکس ہے، یعنی اردو میں طاقت یا اقتدار کی جنگ۔

ملک میں اس وقت جس خانہ جنگی کی صورتحال ہے یہ ’ماخت پولیٹیک‘ اور اس کے ماتحت گیم تھیوریز کی بہترین مثال ہے۔ آغاز میں تو بظاہر یہ سیاسی جنگ ایک تکون کی صورت نظر آتی تھی جس کا ایک کونہ پی ڈی ایم، دوسرا حکومت اور تیسرا اسٹیبلشمنٹ تھی لیکن اصلاً یہ وہ تکون تھی جس کے دو زاویوں کی ڈگری یکساں ناپ تول کی ہوتی ہے۔

سو جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے یہ تکون سکڑ بگڑ کر ایک عمودی لکیر کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کے دونوں سروں پر دو مخالف قوتیں کھینچا تانی کے جارحانہ عمل میں مصروف ہیں اور نتیجہ نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے کہ ایک جانب کے ہر عمل کے جواب میں دوسری جانب سے اسی شدت مگر مخالف سمت کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

اس کھینچا تانی میں لکیر گہری ہوتی ہے، مٹنے لگتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے اس کا انحصار فزکس کے اس قانون پر ہے کہ طاقت کا استعمال کس قدر اور کتنی دیر تک کیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ’ٹگ آف وار‘ (tug of war) میں سِرے کے ایک جانب ہونا تو پی ڈی ایم کو چاہیے تھا لیکن وہاں اب مسلم لیگ (ن) واحد طور پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ دوسرے سِرے پر موجود فریق کا وجود تو بظاہر حکومت کا ہے مگر قوت اسٹیبلشمنٹ کی مستعار اور مستعمل ہے۔

ویسے تو مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی موجودہ قوت اور طاقت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہی مستعار لے کر استعمال کی ہے لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی کتنی جماعتیں کتنی دیر تک مسلم لیگ (ن) کی اِس جارحانہ قوت کا ساتھ دے پاتی ہیں۔

پیپلز پارٹی تو فی الحال گلگت بلتستان کی انتخابی سیاست میں مشغول ہے جہاں الیکشن 15 نومبر کو ہے۔ پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ گذشتہ سات سال سے عمران خان کے حکومتی گڑھ پشاور میں 22 نومبر کو ہے۔ گلگت بلتستان انتخابات کا جو بھی نتیجہ آئے اس کا براہِ راست اثر اور فائدہ پی ڈی ایم کے پشاور جلسے کو خصوصی طور پر اور پی ڈی ایم تحریک کو عمومی طور پر حاصل ہوگا۔

اس وقت تک کی صورتحال کے مطابق گلگت بلتستان انتخابات میں بڑا مقابلہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔ اگر پیپلز پارٹی زیادہ سیٹیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے تو ایک طرف جہاں پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی مضبوطی کا باعث ہوگا وہیں پی ڈی ایم کا سیاسی مورال بھی بلند ہوگا، شفاف انتخابات کے نعرے اور مطالبے بھی زور پکڑیں گے، ملک بھر میں نئے انتخابات کا مطالبہ بھی مزید تیز ہو سکتا ہے۔ وہیں تحریکِ انصاف کے لیے حکومت میں ہو کر بھی گلگت بلتستان کی شکست بہت بڑا سیٹ بیک ہوگی لیکن معاملے کی اصل پھانس یہیں پر ہے کیونکہ یہی سب تحریکِ انصاف نہ تو چاہے گی نہ ہونے دے گی۔

بصورتِ دیگر گلگت بلتستان انتخابات میں اگر تحریکِ انصاف زیادہ سیٹیں حاصل کرکے حکومت بناتی ہے تو بھی فائدہ پی ڈی ایم تحریک کو ہوگا کیونکہ پھر اپوزیشن دھاندلی کے نعرے کو استعمال کرے گی لیکن اس کا بڑا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ صورتحال نمبر دو کی صورت میں اپوزیشن اتحاد دھاندلی کے منترے کو سڑکوں پر، پارلیمان میں، عدالتوں میں، الیکشن کمیشن میں کتنے موثر طور پر استعمال کر پاتا ہے۔

اسی کے ساتھ ایک اور پہلو بھی مدنظر رکھیے کہ اگر گلگت بلتستان میں بھی پیپلزپارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر سندھ حکومت ختم کر دینے کے چانسز تقریباً ختم ہی سمجھیے (جو کہ ن لیگ اور مولانا کی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی توڑ دینے پر منا لیا جائے) لہذا گلگت بلتستان انتخابات جیتنا جہاں پی ڈی ایم کے لیے باعثِ تقویت بن سکتا ہے وہیں باعثِ پریشانی بھی کہ پھر پیپلز پارٹی کے political stakes دُگنے ہو جائیں گے۔ لہذا پی ڈی ایم کے اگلے جلسے (22 نومبر پشاور) سے پہلے گلگت بلتستان کے انتخابات (15 نومبر) انتہائی اہم ہیں۔

پشاور جلسے کے بعد پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ ملتان (30 نومبر) لاہور (13 دسمبر) اور لاڑکانہ (27 دسمبر۔ بی بی شہید کی برسی کے دن) ہے۔ 27 دسمبر کے جلسے کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کی اس سال کی تین ماہ کی جلسوں کی کیمپین مکمل ہو جائے گی اور پھر دیکھا جائے گا کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کر پائے گی یا نہیں اس کا بڑا دارومدار اس بات پر بھی رہے گا کہ مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان (equilibrium) یا سیاسی توازن کی صورتحال کیا رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فی الحال تو جو ماخت پولیٹیک (machtpolitik) مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری ہے ابھی صرف اس کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ فی الحال صرف ایک دوسرے کے اعصاب کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، اصل کھیل تو ابھی شروع ہوا نہیں۔ دونوں اطراف سے فی الحال ابتدائی حربے ہی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

سیاسیات اور تعلقاتِ عامہ کے طالب علموں کو پڑھائی جانے والی پاور پولیٹیکس کی اہم اور دلچسپ حکمت عملیوں میں سے 1۔ ڈیٹرنس تھیوری 2۔ پری ایمپٹیوسٹرائیک (جنگ شروع ہونے سے پہلے کی جھڑپیں) 3۔ بلیک میلنگ اور 4۔ بیٹ اینڈ بلیڈ (یعنی دانہ ڈال کر گھیرو اور زخمی کردو) یہ چار تھیوریز بہت اہم اور دلچسپ ہیں۔

فی الحال مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین انہی چار حکمت عملیوں کے تحت ’ٹگ آف وار‘ جاری ہے۔ اصل پتے تاحال دونوں اطراف سامنے لے کر نہیں آئیں۔ فیالحال دونوں فریق ایک دوسرے کی طاقت اور برداشت کی حدود کو ٹیسٹ کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ن لیگ ایک طرف جہاں جارحیت دکھاتی ہے وہیں مفاہمت اور بات چیت پر آمادگی کے آثار بھی وقتاً فوقتاً نمایاں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مقتدر حلقے بھی مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن صورتحال پر جانے سے تاحال گریزاں ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سے نسبتاً نرم خو اور قابلِ گفتگو و قابلِ اعتماد حلقوں سے معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

’سٹک اینڈ کیرٹ‘ کی پالیسی بظاہر تو لگتا ہے کہ کچھ عرصہ مزید جاری رہے گی اور حتمی فیصلہ ہر اطراف سے کم از کم دسمبر سے پہلے ممکن نہیں۔ نئے سال پر کیا کوئی نئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں فی الحال اس کے تعین کے لیے ابھی کافی وقت پڑا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ