’انتظامیہ سنجیدہ نہیں‘: طالبات کا ہراسانی کے خلاف احتجاج

پشاور کے اسلامیہ کالج میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات کے خلاف یونیورسٹی طالبات نے احتجاجی واک کا اہتمام کیا۔ طالبات کا کہنا ہے کہ ’انتظامیہ واقعات کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔‘

اسلام آباد کے ایک نجی بینک میں ایک ملازم کی جانب سے ساتھ کام کرنے والی خاتون کو ہراساں کرنے اور نامناسب طریقے سے ہاتھ لگانے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد جہاں ملک بھر میں ہراسانی کے موضوع پر بحث مباحثے چل رہے ہیں وہیں پشاور میں ہراسانی کے خلاف احتجاج ہوا۔  

شہر کی تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے بدھ کو خواتین کی ہراسانی کے مسئلے پر یونیورسٹی کے اندر ایک احتجاجی واک کا اہتمام کیا جس میں ایک بڑی تعداد میں مرد طالب علموں نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے ’عورت کو عزت دو‘ کے نعرے لگائے۔

احتجاج میں شریک طالبات نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس احتجاج کا مقصد اسلامیہ کالج اور یونیورسٹی کے اندر ہراسانی کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ایک عرصے سے ادارے کے اندر ہراسانی کے واقعات ہو رہے ہیں تاہم انتظامیہ اس کو حل کرنے کے حوالے سے قطعاً سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔‘

احتجاج میں شامل ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کی ایک ایسی طالبہ کو براہ راست جانتی ہیں جن کو سات دن قبل ایک ٹیچر نے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ طالبہ کے مطابق اس واقعے کے بعد لڑکی کے والدین نے یونیورسٹی کو تحریری شکایت لکھی تاہم ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اس تحریری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’یہاں پر ہراسانی کی ایک کمیٹی ہے، لیکن اس کوخبر تک نہیں ہے اس معاملے کی۔ یہ تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں اور جو بندہ اس ہراسانی میں ملوث ہے وہ الٹا اس طالبہ کو ٹارگٹ کرنے میں لگا ہے۔ اس کے خلاف کیس بنا رہا ہے۔ اس کے کلاس فیلوز کو اپنے دفتر بلا کر ان سے زبردستی دستخط لے رہا ہے تاکہ خود کو معصوم ثابت کرنے کا ایک بہانہ مل جائے۔‘

احتجاج میں شامل ایک اور طالبہ میمونہ زیب کا کہنا تھا کہ نہ جانے اور کتنی لڑکیاں اس یونیورسٹی میں ہراسانی کی شکار ہوئی ہوں گی لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بات کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا: ’دراصل سب خواتین کے خاندان والے اتنا سپورٹ نہیں کرتے کہ وہ جا کر سٹینڈ لیں تو ان کی ڈھال بنیں۔ اور پھر معاشرہ آپ کو پتہ ہے کہ کیسا ہے۔ وہ الٹا مظلوم کو الزام دیتا ہے۔ ایک ذہنیت بنی ہوئی ہے یہاں۔ ‘

 اس سے قبل اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد پر بھی ایک طالبہ نے ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔ تاہم وائس چانسلر نے  انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ میں ان کے بعض مخالفین انہیں ناپسند کرتے ہیں لہذا ان کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی بیٹی کی عمر کی طالبہ کو ان کے خلاف اکسایا گیا تھا۔

طلبہ اور طالبات کی جانب سے ہونے والے تازہ ترین احتجاج کے بعد سامنے آنے والی الزامات کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسلامیہ کالج کی انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی بھی جواب دینے سے گریز کیا۔

خیبر پختونخوا میں محتسب اعلیٰ کے دفتر برائے انسداد ہراسانی نے پچھلے سال تمام اداروں کو اس بات کا پابند بنایا تھا کہ وہ اپنے اداروں میں ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تین ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے بتایا کہ ان کے ادارے میں کمیٹی تو بن گئی ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر نظر آرہی ہے۔

خود انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ نے جب کمیٹی کے ارکان سے بات کرنے کی کوشش کی کہ معلوم کیا جا سکے کہ انہوں نے حالیہ واقعات میں کیا کردار نبھایا ہے اور وہ چھان بین کیوں نہیں کر رہے ہیں تو کسی نے دفتر میں موجود نہ ہونے کا بہانہ کیا تو کسی نے نامعلوم مقام پر میٹنگ کا ذکر کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس