ذہنی پسماندگی کا بحران

ایٹم بم بناتے ہوئے ہم نے عہد کیا تھا کے گھاس کھائیں گے مگر بم ضرور بنائیں گے۔ میں بھی اس کا حامی تھا اور ہوں کہ بم بنانا ٹھیک فیصلہ تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بم بناتے وقت تو گھاس نہ کھائی مگر بم بنا کر اب ہم گھاس کھا رہے ہیں اور اس پر خوش ہیں۔

اجتماعی طور پر ہم کولہو کے بیل کی طرح ہی چل بھی رہے ہیں اور کہیں جا بھی نہیں رہے۔(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


دائروں میں سفر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں یکسانیت ہوتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ سماج کی ذہنی پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔ کولہو کے بیل کی مثال دیکھ لیں۔

اس کی آنکھوں پر پٹی اس لیے باندھی جاتی ہے تاکہ اس یکسانیت سے اس کا ذہن چکرا نہ جائے۔ کچھ یہی حال اس قوم کا بھی ہے پچھلے تہتر سالوں سے دائروں کا سفر جاری ہے اور دھوکہ دینے کے لیے چہروں کی تبدیلی کو حقیقی تبدیلی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مزید دھوکہ دینے کے لیے ہر اہم واقعے اور حادثے کے حقائق کو کئی پردوں میں چھپایا جاتا ہے تاکہ قوم کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہے۔ لیاقت علی خان کو مارنے کی سازش کہاں تیار ہوئی، بھٹو کو پھانسی دینا کیوں ضروری تھا، ضیا الحق کا طیارے کس نے تباہ کیا، بےنظیر کو مارنے کے پیچھے کیا سازش تھی اور کیا نواز شریف کے ہٹانے میں کوئی بیرونی ہاتھ کار فرما تھا۔

کبھی ہم نے حقائق جاننے کی جستجو نہ کی۔ سوچ پر ہم نے پہرے بٹھا دیئے ہیں اور سوال کرنے والوں کو ہم برا سمجھتے ہیں یا شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں چاہے وہ سوال کسی حکمران سے ہو، بیوروکریٹ سے ہو، جنرل سے ہو، استاد سے ہو، والدین سے ہو یا مسجد کے امام سے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم یکسانیت کا شکار ہو چکے ہیں اور ذہنی پستی کا شکار ہیں۔

آپ اخبار کے کالم اٹھا کر پڑھیں سب ایک ہی بات لکھ اور بول رہے ہیں۔ میں پہلے ہی اعتراف جرم کر چکا ہوں کہ دائروں کے سفر میں مجھے باتیں بار بار کرنا پڑتی ہیں۔ ٹاک شوز دیکھیں وہاں بھی وہی بات ہے جو کالموں میں لکھی ہے۔ چہرے بھی وہی ہیں جو ہر پروگرام میں کئی سالوں سے نظر آتے ہیں۔ مسائل بھی وہی ہیں جن کا ذکر کئی دھائیوں سے ہو رہا ہے۔ کرپشن، نااہلی، نالائقی، بدانتظامی اور بےایمانی کا بازار اتنے لمبے عرصے سے لگا ہوا ہے کہ اب کسی خبر پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔

سیاست بھی ٹھہری ہوئی ہے، قوم بھی اور اس کے ادارے بھی۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل قمر باجوہ تک کیا فرق ہے؟ کچھ بھی نہیں صرف چہرے اور تاریخ کا فرق ہے۔ بلاول اور مریم بھی وہی باتیں کر رہے ہیں جو پہلے ان کے والدین کرتے تھے۔ عمران خان بھی وہی تقریریں اور جھوٹے وعدے کر رہے ہیں جو اس سے پہلے بھٹو، نواز شریف اور دوسری پارٹیاں کر چکے ہیں۔ اب تو دھرنا اور احتجاج بھی یکسانیت کا شکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی وی ڈراما دیکھیں تو وہی ساس بہو کا جھگڑا یا نوجوانوں کی محبت کے سامنے سماج کی دیوار۔ ان سالوں میں ہم ساس بہو کا جھگڑا ہی نہ سلجھا سکے تو دوسرے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر لکھنے والے کیا لکھیں۔ ویسے بھی جب کوئی ہمت کر کے ان مسائل پر لکھنا چاہے تو مقتدر اشرافیہ جنہوں نے اس ملک کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے پریشان ہو جاتی ہے کہ کہیں عوام جاگ نہ جائیں۔ یہاں بھی ذہنی پسماندگی ہی ہمیں پسند ہے۔ 

بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا مگر میں پچھلے 30 سال سے سن رہا ہوں ہمیں اپنی برآمدات بڑھانی چاہییں اور کپڑوں کے علاوہ دوسری چیزیں بھی برآمد کرنی چاہییں۔ دوسری کیا چیز برآمد کریں؟

جو قوم یکسانیت اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہو وہ کیا ایجاد کرے گی اور دنیا کو کیا نیا دے گی۔ ہم روڈوں پر مشینیں استعمال کر کے سیدھی لکیریں نہیں کھینچ سکتے تو اور کیا کریں گے۔ ہماری یونیورسٹیوں نے کتنی ریسرچ کی جس کا دنیا میں نام ہوا؟ کتنے پیٹنٹ ہمارے لوگوں نے دنیا میں رجسٹر کروائے۔ جنوبی کوریا ہمارے بعد آزاد ہوا اور  آج ان کے کئی سو ایسے برانڈ ہیں جو دنیا میں اپنی جدت کے لیے ممتاز ہیں۔ ان کے موبائل فون اور گاڑیاں دنیا کی مقبول ترین بن چکی ہیں۔

ہم کپڑوں کا بھی کوئی ایک عالمگیر برانڈ نہ بنا سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم میں قابلیت کی کمی ہے۔ جو قابل ہیں وہ یکسانیت اور جمود سے گھبرا کر ہجرت کر رہے ہیں۔ جو قابل پیچھے رہ گئے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں انہیں لگتا ہے بے جان دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔

کھیلوں کو ہی لے لیں۔ کرکٹ کے علاوہ کس دوسرے کھیل میں ہمیں بین الاقومی مقام حاصل ہے؟ ہاکی قومی کھیل ہے مگر جو چیز قومی ہو اس کا بیڑا غرق کرنے میں ہم یکتا ہیں۔ کرکٹ میں بھی ہم دوسری کمزور ٹیموں سے ہارنے لگے ہیں مگر اس میں کچھ  قابل کھلاڑی اب تک اس لیے آ رہے ہیں کے پیسہ بنتا ہے۔

سکواش اور باکسنگ میں ہم کچھ بہتر تھے مگر اولمپک کمیٹی کو اچھے داموں بیچنے کے بعد اس میں اب کوئی امید نہیں ہے۔ کھیلوں میں بھی یکسانیت اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔ نہ ہم سکولوں میں اچھی جسمانی ورزش کو ترغیب دیتے ہیں اور نہ ہم نے نوجوانوں میں شوق پیدا کیا اور نہ انہیں وسائل دیئے کہ وہ دنیا میں اپنا اور ملک کا نام کمائیں۔ یکسانیت اور ذہنی پسماندگی کا راج ہے۔

زراعت میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم اب تک اپنی زمینوں سے اتنی بھی پیداوار نہ لے سکے جو دوسرے ملک لے رہے ہیں۔ قدرتی کاشت کاری کا دنیا میں چرچہ ہے اور ہم اب ناقص کیمیائی اجزا استعمال کر کے اپنی زمینوں کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔ پانی کو لوگ احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کیا ہے، ہم ابھی تک کچی نالیوں میں آدھا پانی ضائع کر دیتے ہیں۔

ایٹم بم بناتے ہوئے ہم نے عہد کیا تھا کے گھاس کھائیں گے مگر بم ضرور بنائیں گے۔ میں بھی اس کا حامی تھا اور ہوں کہ بم بنانا ٹھیک فیصلہ تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بم بناتے وقت تو گھاس نہ کھائی مگر بم بنا کر اب ہم گھاس کھا رہے ہیں اور اس پر خوش ہیں۔

میں جس شعبے میں دیکھتا ہوں اپنے ملک میں مجھے یکسانیت اور جمود نظر آرہا ہے اور مصیبت یہ ہے کہ ہم اس سے مطمئن ہیں اور اسے بدلنے میں سنجیدہ نہیں۔ انفرادی طور پر ہم بہت اچھے لوگ ہیں مگر اجتماعی طور پر ہم کولہو کے بیل کی طرح ہی چل بھی رہے ہیں اور کہیں جا بھی نہیں رہے۔

میں کئی دفعہ آپ کو کہہ چکا ہوں میرے پاس نہ کوئی جادو کی چھڑی ہے اور نہ بندوق ہے کہ آپ کو کسی نئی سمت میں لے جاؤں۔ میرا مطالعہ یہ کہتا ہے سوچ اور نظام کو بدلے بغیر ہم کولہو کے بیل ہی رہیں گے۔ سوچ سب سے پہلے رہنماؤں کی بدلنی چاہیے اور پھر وہ نظام کو بدلیں تاکہ پوری قوم کو اجتماعی طور پر ایک نئے سفر اور منزل کے لیے تیار کریں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ