مطالعہ پاکستان بذریعہ ضمنی انتخابات

یہ ضمنی انتخابات ضمنی نہیں بلکہ مطالعہ نیا پاکستان کی پوری کتاب ہے جن کو دیکھ کر آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے اور اور کیسے چلے گا۔

جب چند سو پولنگ سٹیشنز اور وہاں پر ڈالے ہوئے ووٹوں کا تقدس برقرار رکھنا مشکل ہو تو قومی سطح پر انتخابات بدترین گھپلوں کے بغیر کیسے کروائے جا سکتے ہیں؟ (اے ایف پی فائل)

ضمنی انتخابات میں عموماً عوامی شرکت اور پارٹی کارکنان کا جوش و خروش عام انتخابات سے کہیں کم ہوتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا تجزیاتی مفروضہ بھی یہی ہے کہ اکادکا سیٹوں پر ہونے والے مقابلے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دینا ہی بہتر ہے۔ مگر پچھلے ہفتے نوشہرہ، ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات کو دیکھ کر ہمیں اپنا تصور تبدیل کرنا ہو گا۔

یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر مخالف جماعتیں آمنے سامنے کھڑی ہوں۔ اس کی ایک وجہ ان انتخابات کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہونا تھا۔ ان سے پہلے سندھ میں ضمنی انتخابی مقابلے ہوئے لیکن یہ ہنگامہ نہ مچا۔ نتائج پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ نہ ہی خصوصی نشریات کا بندوبست ہوا۔

دوسری وجہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا ٹاکرا تھا بلکہ یوں کہیں جماعتیں نہیں قیادت ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھی۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کے چہیتے وزرا اور مشیر صف بند تھے۔ فردوس عاشق اعوان، عثمان ڈار جب ساتھ ساتھ ہوں اور حلقے پر سیالکوٹ کی مہر لگی ہو تو سمجھیں آدھے پنجاب پر بھاری ملاکھڑا ہے۔

گوجرانوالہ میں وزیر اعظم کے آرائیں دوست اپنی پگ کو سر پر جمانے کے لیے کوشاں تھے۔ مرکز میں ان دونوں نشستوں پر ہار جیت ذاتی عزت اور بے عزتی میں تبدیل کر دی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں وزیر دفاع پرویز خٹک اس زعم میں کہ وہ حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ ان کے سامنے کوئی مخالف سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ ویسے بھی نوشہرہ فوجی بھائیوں کا شہر بھی تصور ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اس صوبے کو اپنا لاڑکانہ سمجھتی ہے۔ یہاں کے نتائج حکمران جماعت کی سیاسی وقعت کا میزان بننے تھے۔ دوسری طرف ن لیگ کی پنجاب میں دو جیتی ہوئی نشستیں تھیں جن کو واپس لینا نہ صرف پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو تسلی دینے کا ذریعہ بنانا تھا بلکہ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ پارٹی ختم نہیں شروع ہوئی ہے۔

مریم نواز کے لیے یہ تینوں انتخابات ایک ذاتی جنگ تھے۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور خواجہ آصف پابند سلاسل اور خیبر پختونخوا میں ن لیگ ہزارہ کے ان حلقوں سے ہٹ کر میدان میں جہاں پر اس نے تاریخی طور پر بہت کم نسشتیں جیتی ہیں۔ نوشہرہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اپنے امیدوار کو پی ڈی ایم سے نہ جوڑنے کے بعد صورت حال اور بھی مشکل ہو گئی تھی۔

مریم نواز نے نوشہرہ جانے کا معاملہ جب پارٹی میں اٹھایا تو مخالفت میں دیے گئے مشورے کا خلاصہ یہ تھا کہ پارٹی کی جیت ناممکن ہے اور ہارنے کے بعد نقاد خواہ مخواہ آپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ عملاً مریم نواز کا یہ پہلا ایسا انتخابی معرکہ تھا جس کی تمام تر تیاری اور ہار جیت کی ذمہ داری ان کے اپنے سر تھی۔

اس تمام تناظر کے پیش نظر یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کتنے بڑے ذاتی مفادات ان تین سیٹوں پر مرکوز تھے۔ ایک اور معاملہ اس بیانیے کا بھی تھا جس کا حکومت نے خود سے چرچا کیا۔ یہ کہا گیا کہ یہ کرپٹ ٹولے اور شفاف، دودھ سے دھلے ہوئے نظریات کی جنگ ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے حق اور اس کی مخالفت کی لڑائی ہے۔

یہ ماحول بنایا گیا کہ جیسے ان کے نتائج یہ فیصلہ کر دیں گے کہ اگلے پانچ سال کس جماعت کی حکومت قائم ہو گی۔ پھر بے شمار انتظامی، سیاسی وسائل بھی صرف ہوئے۔ معرکے تو چھوٹے تھے مگر تیاری جنگ عظیم جیسی کی گئی تھی۔
میڈیا کے لیے ایک طویل عرصے کے بعد سٹوڈیو میں گھسے پٹے موضوعات کو گھمانے کے تھکا دینے والی سے معمول سے ہٹ کر واقعات پر مبنی رپورٹنگ اور تجزیے کا موقع بنا۔ ہر کارآمد و ناکارہ اینکر خود کو سیاسی افلاطون ثابت کرنے کے لیے میدان میں کود پڑا۔ ایسی تجزیاتی توانائیاں صرف ہوئیں جو اہم ترین قومی معاملات کو زیر بحث لانے میں ہوتی ہیں۔

اور پھر سوشل میڈیا جس نے جوشیلے پن کو درجہ عروج پر پہنچا دیا۔ ان تمام عناصر نے اس وقت ان انتخابات کے نتائج اور ان میں سے نکلنے والے تنازعات کو ایک قومی سیاسی احتساب کی شکل دے دی ہے۔ جس تیزی سے خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کے بھائی کو وزارت سے فارغ کیا گیا ہے اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ نوشہرہ میں لگی چوٹ کا درد کہاں تک پہنچا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلم لیگ ن ڈسکہ میں ہونے والے حیرت انگیز مگر انتہائی بھونڈے دھاندلی پلان کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ جس کے ذریعے وہ 2018 میں ہونے والی مبینہ انتخابی واردات کی یادہانی بھی کروا رہی ہے اور مستقبل میں نظام کی ممنکہ دو نمبریوں کی طرف اشارہ بھی کر رہی ہے۔

حکومت نے ڈسکہ کو جیتنے کے لیے جتنا زور لگایا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ کی سیاسی کشمکش کیسے رخ اختیار کرے گی۔ جس طرح پولنگ سٹیشنز پولیس سٹیشن میں تبدیل ہوئے، اسلحے کا کھلا استعمال ہوا، وزرا ہر طرف دندناتے پائے گئے اور پھر میڈیا میں پروپیگنڈے کی بہتات دیکھنے میں آئی، اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ سیاسی مفاہمت کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔

الیکشن کمیشن جو پہلے سے ہی سینیٹ کے انتخابات میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے زیر عتاب ہے ان معرکوں کے توسط مزید تضادات میں الجھ گیا ہے۔ فی الحال ڈسکہ پر نوٹس لے کر جو کارروائی کی گئی ہے اس نے اس ادارے کی کچھ ساکھ بچائی ہوئی ہے۔ مگر دیکھنے اور جاننے والے یہ سوچتے ہیں کہ ایسے معاملات جو ساری قوم نے فلم بند ہوئے دیکھے ان کا نوٹس لینا الیکشن کمیشن کی مجبوری کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

یہ اہم ادارہ تمام دن ووٹروں کی لمبی لائنوں اور پولنگ سٹیشن پر ہنگامہ آرائی جیسے معاملات پر عملاً خاموش رہا۔ پولنگ سٹیشن سے عملے کا آگے پیچھے ہو جانا اور انتظامیہ کا چیف الیکشن کمشنر کو فون پر لفٹ نہ کرانا وہ معاملات ہیں جو اس ادارے پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے فارن فنڈنگ کیس اور فیصل واوڈا کی طرف سے برتی گئی توہین آمیز لاپروائیوں نے الیکشن کمیشن کو بیک فٹ پر ڈالا ہوا تھا۔

ان تمام واقعات کو ملا کر پڑھیں تو جس ادارے پر تمام قوم جمہوری بنیاد بنانے کے حوالے سے اعتبار کرتی ہے اس کی صحت کی رپورٹ بری ہی نظر آئے گی۔ جب چند سو پولنگ سٹیشنز اور وہاں پر ڈالے ہوئے ووٹوں کا تقدس برقرار رکھنا مشکل ہو تو قومی سطح پر انتخابات بدترین گھپلوں کے بغیر کیسے کروائے جا سکتے ہیں؟

یہ ضمنی انتخابات ضمنی نہیں بلکہ مطالعہ نیا پاکستان کی پوری کتاب ہے جن کو دیکھ کر آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے اور اور کیسے چلے گا۔ اور یہ کہ یہاں کیا مقدس و مقدم  ہے اور کیا پامالی اور بے ایمانی کے لئے جائز قرار پا چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ