آرمینیا: صدر کا آرمی چیف کو ہٹانے کے حکم نامے پر دستخط سے انکار

آرمینیا میں صدر کی جانب سے آرمی چیف کو برطرف کرنے کے وزیراعظم پشینیان کے حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد سیاسی بحران شدید ہو گیا۔

وزیراعظم نے صدارتی بیان سامنے آنے کے فوری بعد فیس بک پر لکھا کہ  وہ ایک بار پھر صدر کو آرمی چیف کی برطرفی کا حکم بھجوائیں گے (اے ایف پی/ آرمینیا حکومت)

آرمینیا کے صدر آرمن سرکسیان نے کہا ہے کہ انہوں نے ملک کی فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کے لیے وزیراعظم نیکول پشینیان کے حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

صدر کے انکار کے بعد ملک میں قومی سیاسی بحران مزید شدید ہو گیا ہے۔ صدر کی جانب سے وزیراعظم کے حکم نامے پر دستخط سے انکار ایسے وقت پر سامنے آیا جب حزب اختلاف کی جماعتوں کے ہزاروں مظاہرین یریوان کی سڑکوں پر مسلسل تین دن سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں۔ مظاہرین چاہتے ہیں کہ وزیراعظم گذشتہ سال آذربائیجان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے معاملے کو نمٹانے کے اپنے طریقے پر استعفیٰ دیں کیونکہ ملک میں بہت سے لوگ اس جنگ کے نتیجے کو قومی توہین کے طور پر دیکھتے ہیں۔

تازہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب وزیراعظم پشینیان نے فوج کی طرف سے اپنے استعفے کے مطالبے کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا الزام لگایا۔

وزیراعظم پشینیان نے چیف آف جنرل سٹاف اونک گسپریان کو برطرف کرنے کا بھی حکم جاری کیا لیکن ہفتے کو صدر سرکسیان نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس برطرفی کی حمایت نہیں کریں گے۔

انہوں نے وزیراعظم کے حکم نامے پر اعتراض لگا کر واپس بھجوا دیا۔ صدارتی بیان میں کہا گیا کہ سیاسی بحران کو بار بار انفرادی نوعیت کی تبدیلیوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری جانب وزیراعظم نے صدارتی بیان سامنے آنے کے فوری بعد فیس بک پر پوسٹ کی کہ وہ ایک بار پھر صدر کو آرمی چیف کی برطرفی کا حکم بھجوائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کے فیصلے سے بحران بالکل ختم نہیں ہوا۔

آرمینیا کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم نیکول پشینیان کے استعفے  کے لیے 11 نومبر 2020 سے مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔

انہوں نے نگورنو کاراباخ کے بارے میں روس، آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین سہ فریقی معاہدے پر دستخط کے بعد احتجاج کرنا شروع کیا تھا۔

دوسری جانب کاراباخ جنگ میں شکست کے بعد آرمینیائی عوام میں پائے جانے والے تناؤ اور عوامی غیظ و غضب کے باوجود، پشینیان حکومت نے اس بحران کی پہلی لہر سے نمٹ لیا، لیکن ملک میں تناؤ کی کیفیت برقرار ہے۔

پشینیان حکومت گلیوں اور چوکوں میں عوامی مظاہروں کے ذریعہ 2018 میں اقتدار میں آئی تھی۔ اس نے سابق وزیر اعظم سرج سارگسن کو استعفی دینے پر مجبور کیا تھا۔

عوامی عدم اطمینان کی بڑھتی لہر کے پیش نظر اپوزیشن جو دوسرا طریقہ استعمال کرسکتی ہے وہ ہے پشینیان کو پارلیمنٹ کے ذریعے اپنا استعفی جمع کروانے پر مجبور کرنا لیکن آج تک اس کے امکانات بھی کم دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ حزب اختلاف کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے۔

خود پشینیان کی پارٹی کی 132 میں سے 88 نشستیں ہیں۔ آج آرمینیا کو بیرونی مسائل کے ساتھ اندرونی سیاسی بحران کی دوسری لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ سوویت یونین کے بعد کے خلا میں فوجی بغاوت کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے لیکن پشینیان نے فوج پر اس وقت بغاوت کی کوشش کا الزام عائد کیا جب فوج نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

آرمینیائی مسلح افواج کی طرف سے ملک میں فوجی بغاوت نہیں ہوسکی ہے کیوں کہ کسی جماعت نے بھی اس کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آرمینیائی فوج کے سربراہ کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ملک میں ان کے اختیارات میں تیزی سے کمی اور ریاست میں تقسیم کا ایک اشارہ ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اختلافات کے بعد وزارت دفاع نے فوج کو سیاست میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم نے 24 فروری کو روس کے الیگزینڈر میزائلوں کے بارے میں بیانات دیے۔ ان کے مطابق دوسری کاراباخ جنگ میں صرف دس فیصد یا اس سے بھی کم میزائل پھٹے۔

اس بیان نے ڈپٹی چیف آف سٹاف کا مذاق اڑایا۔ روسی فوج کے ترجمان نے بھی اعلان کیا کہ آخری جنگ میں ایک بھی الیگزینڈر میزائل استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

اس پس منظر کے ساتھ  اگلی صبح، 25 فروری کو پشینیان نے ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف کو برطرف کر دیا۔ دوسری طرف فوج کے سربراہ وزیراعظم نے ان سے استعفی دینے کا مطالبہ کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ کے باہر ان سڑکوں پر بھیج دیا جہاں انہوں نے کبھی خیمے لگائے تھے۔

انٹیلی جنس سروسز نے آرمینیائی وزیر اعظم کی حمایت کی۔ وزیراعظم نے پھر چیف آف جنرل سٹاف اونک گیسپریان کو برطرف کرنے کی کوشش کی لیکن اس بارے میں فیصلے پر صدر آرمن سرکسیان کے دستخط ہونا ضروری ہے لیکن وہ اب تک کسی حد تک غیرجانبدار ہیں۔

صدر نے پہلی مرتبہ فوج کے سربراہ کی طرفی کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے پشینیان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام موجودہ حالات میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم پشینیان فوج کے سربراہ کی برطرفی کا حکم نامہ دوبارہ صدر کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وزیراعظم پشینیان کی روسی میزائلوں کی افادیت پر تبصرہ اور تنقید نہ صرف ماسکو کے لیے اشتعال انگیز دکھائی دیتے ہیں بلکہ آرمینیا کی فوج کے لیے بھی ناگوار ہو سکتے ہیں جو سلسلے کی سب سے زیادہ خطرناک کڑی بن چکی ہے۔

گذشتہ برس آذربائیجان کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں آرمینیا کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سیاسی غلطی نے طویل عرصے سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ملک کے حزب اختلاف کی پوزیشن کو مضبوط بنا دیا۔

دوسری جانب ترکی نے ان واقعات کو فوری طور پر بغاوت کی کوشش قرار دیا۔ ترکی کے ردعمل نے آرمینیائی حزب اختلاف کا حوصلہ بڑھایا اور اس نے وزیراعظم پشینیان کو ’غدار‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جنہیں صرف اپنی حکومت کے تحفظ میں دلچسپی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی آرمینیا کی فوج کی مخالفت کی ہے۔

وزیراعظم پشینیان نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو فون کیا لیکن انہوں نے ان کی حکومت حمایت کرنے سے گریز کیا۔

دونوں ملکوں کی اطلاعات سے متعلق سروسز نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ بیان کیا۔

آرمینیائی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ روسی صدر نے آرمینیا میں قانونی حکام کی حمایت کرتے ہوئے صورت حال معمول پر آنے کی امید ظاہر کی ہے۔ دوسری طرف ابتدائی طور پر کریملن کی ویب سائٹ پر ایسا کچھ نہیں تھا۔

آمینیا میں امن اور صورت حال کا قانون کے دائرے میں رہ کر حل

ملک میں 25 فروری کو شروع ہونے والی بحران کی دوسری لہر قابل تشویش ہے۔ وزیراعظم پشینیان نے مقامی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں آرمینیا کی فوج کے پاس موجود روس کے الیگزینڈر میزائلوں کے بارے میں توہین آمیز بات کی۔

آرمینیا میں سیاسی منظرنامہ زیادہ پیچیدہ اور مبہم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ 2018 کے موسم بہار میں اقتدار سنبھالنے والے پشینیان اور ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ سابق وزیراعظم سرج گسیان بھی گذشتہ سال کے آخر میں آذربائیجان کے ساتھ ہونے والی جنگ میں ملک کی فوجی شکست کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ اپنی 20 سالہ حکمرانی کے دوران نگورونو کاراباخ کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے۔

وزیراعظم پشینیان اور ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے مستعفی ہو جانے کی صورت میں اقتدار دوبارہ ان لوگوں کے پاس چلا جائے گا جن کی بدعنوانی کے خلاف انقلاب برپا کیا گیا۔

موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نگورونو کاراباخ پر ہونے والی دوسری جنگ کے نتیجے میں آرمینیا میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران جاری رہے گا۔ جدید تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے بحرانوں سے کا ایک طریقہ ملک کی سیاسی قیادت کا استعفیٰ بھی ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا