آرمینیا، آذربائیجان کی لڑائی میں ’غیر ملکی جنگجوؤں‘ کا استعمال؟

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کاراباخ کے متنازع خطے میں چوتھے روز بھی جھڑپیں جاری رہیں جبکہ دونوں ہی ممالک نے غیر ملکی جنگجوؤں کو جنگ میں جھونکنے کے دعوے کیے ہیں۔ 

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کاراباخ کے متنازع خطے میں چوتھے روز بھی جھڑپیں جاری رہیں جبکہ دونوں ہی ممالک نے غیر ملکی جنگجوؤں کو جنگ میں جھونکنے کے دعوے کیے ہیں۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قفقاز کے متنازع صوبے کے دارالحکومت سٹیپنکیرٹ بدھ اور جمعرات کی نصف شب دو خوفناک دھماکوں سے لرز اٹھا جس کے بعد شہر میں سائرن بجنے لگے۔

مکینوں کا کہنا ہے کہ شہر پر ڈرونز سے حملہ کیا گیا تھا جب کہ دھماکوں کے بعد بجلی منقطع ہونے سے سڑکیں تاریک ہو گئیں۔ 

دوسری جانب ماسکو نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون نے کاراباخ میں لڑائی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے تیار ہیں۔

کریملن سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ولادیمیر پوتن اور ایمانوئل میکرون نے متحارب فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ کو مکمل طور پر روکیں اور جلد از جلد کشیدگی کو ختم کریں اور زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔‘

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ٹیلیفون کال میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ روس، فرانس اور امریکہ پر مستمل ’منسک گروپ‘ کے پلیٹ فارم سے لڑائی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا جائے گا اور بات چیت کا آغاز پر زور دیا جائے گا۔

آرمینین اور آزربائیجان کی افواج کے درمیان علیحدگی اختیار کرنے والے نسلی آرمینیائی صوبہ کاراباخ کے تنازع پر گذشتہ اتوار سے خونی جھڑپیں جاری ہیں اور اس تصادم میں اب تک تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے بھاری نقصان کا دعویٰ کیا ہے۔

باکو اور یریوان نے جنگ بندی کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کو نظرانداز کر دیا ہے جس نے اس خدشہ کو جنم دیا ہے کہ یہ تنازع جنگ کی طرف بڑھ جائے گا اور ترکی اور روس جیسی علاقائی طاقتوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

بدھ کو کاراباخ علیحدگی پسند رہنما عیرک ہاروتیون نے کہا کہ ’ہمیں طویل المیعاد جنگ کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘

ماسکو، جس کا آرمینیا کے ساتھ فوجی معاہدہ ہے لیکن آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، نے بار بار لڑائی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی پیش کش کی ہے۔

روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے دونوں سابق سوویت ریاستوں کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت میں ثالثی کے لیے ماسکو کی ’تیاری‘ کی تصدیق کی ہے لیکن متحارب ممالک کے کسی بھی رہنما نے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی۔

آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف نے اس عزم کا اعلان کیا تھا کہ وہ اس وقت تک لڑائی جاری رکھیں گے جب تک کہ آرمینین فوج  کا کاراباخ سے مکمل طور پر انخلا نہیں ہو جاتا۔

انہوں نے زخمی فوجیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آرمینین حکومت اس مطالبے کو پورا کرتی ہے تو لڑائی اور خونریزی ختم ہو جائے گی اور خطے میں امن قائم ہوگا۔‘

ادھر آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے کہا کہ ’سخت دشمنی کے ماحول میں مذاکرات کی بات کرنا مناسب نہیں ہے۔‘

دارالحکومت یریوان میں درجنوں افراد آذربائیجان کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے فوج کے بھرتی دفتر کے باہر قطاروں میں کھڑے تھے جہاں محاذ جنگ پر اب تک لڑائی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ دونوں فریقین نے بدھ کو نئی شہری ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔

آرمینیا کا کہنا ہے کہ اس کے 104 فوجی اور 23 شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس کی فورسز نے کاراباخ کی علیحدگی پسند فوج کے 2300 فوجیوں کو ہلاک اور 130 ٹینک، 200 آرٹلری یونٹ، 25 اینٹی ایرکرافٹ یونٹ، پانچ گولہ بارود کے ڈپو، 50 اینٹی ٹینک یونٹ اور 55 فوجی گاڑیاں تباہ کر دی ہیں۔

آرمینیا نے دعویٰ کیا کہ اس کی افواج نے آذربائیجان کے 130 فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ دشمن کے 200 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ ’آرمینین مسلح افواج نے دشمن کے 29  ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ کر دی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یریوان کا دعویٰ ہے کہ آذربائیجان کا دیرینہ اتحادی ترکی باکو کو براہ راست فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔

کاراباخ علیحدگی پسند رہنما نے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ ترکی جنگ میں شامل ہے۔

علیحدگی پسند رہمنا ہارتیونیان نے کہا: ’ہمارا اصل دشمن ترکی ہے۔‘

علیئیف کے مشیر خارجہ حکمت کھججیئف نے اے ایف پی کو بتایا: ’مشرقی وسطیٰ کے کچھ ممالک کے ’کرائے کے فوجی‘ آرمینین فوج کے شانہ بشانہ ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس کی وزارت خارجہ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ شامی اور لیبیا سے تعلق رکھنے والے ’غیر قانونی مسلح گروہوں کے جنگجوؤں کو ناگورنو کاراباخ خطے میں بھیجا جا رہا ہے۔‘

روس نے دونوں ممالک سے تنازع میں ’غیر ملکی دہشت گردوں اور کرائے کے فوجیوں‘ کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

شامی باغی گروپ کے دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ترکی آذربائیجان کی حمایت کے لیے شامی باغی جنگجوؤں کو بھیج رہا ہے جب کہ ترکی اور آذربائیجان نے اس دعوے سے انکار کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا