پلاسٹک کا کچرا سمندر میں پہنچنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟

ہر سال پلاسٹک پر مشتمل لاکھوں ٹن کچرا سمندر پہنچتا ہے، لیکن اس کے بعد یہ کن مراحل سے گزرتا ہے؟

پلاسٹک کی بوتلوں کی طرح کے بڑے ٹکڑےتحلیل ہونے سے پہلے صدیوں نہیں تو کئی سالوں تک ضرور سمندر کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں (پکسا بے)

ہم ہر سال دسیوں لاکھ ٹن کچرا پیدا کرتے ہیں جس میں سے تقریباً ایک کروڑ ٹن سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ اندازے کے مطابق کل پلاسٹک میں سے آدھی پانی سے ہلکی ہوتی ہے اس لیے سطح پر ہی تیرنے لگتی ہے۔ لیکن سائنسدان کہتے ہیں سطح سمندر پر تیرنے والی پلاسٹک صرف تین لاکھ ٹن کے قریب ہوتی ہے۔

سوال یہ کہ باقی 97 لاکھ ٹن کہاں جاتی ہے؟ اونی کپڑوں سے بہتے پلاسٹک فائبر کے سفر کو ہی لے لیجیے۔ تیز بارش اسے کسی برساتی نالے یا قریبی دریا میں بہا لے جاتی ہے۔ کیا یہ باریک ریشہ وہیں رک جاتا ہے؟

یا دریا اسے اپنے ساتھ ساحل سمندر تک لے جاتا ہے جہاں یہ تہہ میں بیٹھ جاتا ہے؟ یا یہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور کھلے سمندر میں پہنچ کے اختتام پذیر ہوتا ہے؟ پلاسٹک کچرے کی صورت میں مختلف تشکیلی مراحل سے گزرتا یہ فائبر ان گنت پراسرار رازوں میں سے ایک ہے۔

نظروں سے اوجھل ہونے والے پلاسٹک کی آخری منزل کا سراغ لگانے سے ہم جان سکتے ہیں کہ سمندر کا کون سا حصہ اس آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور کہاں صفائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں پلاسٹک کی مختلف گزرگاہوں کا تعین کرنا ہو گا جس کے لیے ماہرینِ طبیعیات، حیاتیات اور ریاضی دانوں پر مشتمل ایک بڑی مشترکہ ٹیم درکار ہو گی۔

ہماری ریسرچ ٹیم یہی کر رہی ہے۔ ابھی تک جو کچھ ہم جان سکے وہ یہ ہے۔

پلاسٹک کی گزرگاہیں

ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ پلاسٹک کی بوتلوں کی طرح کے بڑے ٹکڑے اگر تحلیل ہونے سے پہلے صدیوں نہیں تو کئی سالوں تک ضرور سمندر کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں۔

لہریں، ہوائیں اور پانی کے دھارے کئی برسوں کے سفر کے بعد انہیں گائر کے نام سے معروف ہزار کلومیٹر تک پھیلے ہوئے سمندر کے نشیبی مرکزی حصے میں جمع کر دیتے ہیں۔ یہ کچرے کے ٹکڑے ردی کے جزیرے کے بجائے پلاسٹک کے سُوپ جیسی سیال شکل سے مشابہت رکھتے ہیں۔

لیکن سمندر میں پہنچنے والے پلاسٹک کے باریک ریشوں اور چھوٹے ٹکڑوں کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں تک کہ توڑنے والی لہروں کی ہلچل اور سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے بڑے فائبر بھی دنوں اور ہفتوں بعد چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔ انہیں مائیکروپلاسٹک کہتے ہیں جو پانچ ملی میٹر سے لے کر بیکٹیریا سے بھی چھوٹے نقطوں کے سائز پر مشتمل ہوتے ہیں۔

صرف خوردبین سے نظر آنے والے ان باریک ذروں کو مچھلیاں کھا سکتی ہیں اور اندازے کے مطابق اگر انسان تین مچھلیاں کھائیں تو ان میں سے ایک کے اندر مائیکروپلاسٹک ضرور ہوتا ہے۔ سطح پر تیرنے والے zooplankton جیسے خورد بین سے نظر آنے والے جاندار بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نگل جاتے ہیں جنہیں بعد میں وہیل جیسے بڑے جانور ہڑپ کر جاتے ہیں۔

’بائیوفولڈنگ‘ کے نام سے معروف عمل جس میں خوردبینی سمندری مخلوق مائیکروپلاسٹک کی عادی ہو جاتی ہے اور اس کے لیے پانی کے نیچے تک پہنچ جاتی ہے۔

امریکہ کے دریائے مسی سپی اور برازیل کے ایمازون جیسے گدلے دریاؤں میں موجود مٹی نمکین سمندری پانی کے ساتھ ملنے کے بعد مسلسل تہہ میں اکٹھی ہوتی رہتی ہے۔ مائیکروپلاسٹک کو یہ مٹی نیچے کھینچ لے جاتی ہے لیکن کتنا نیچے؟ یہ ابھی تک نا معلوم ہے۔

ہر طرح کی پلاسٹک کی مقدار کا الگ الگ تعین کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ مٹی کے ساتھ آنے والے یا ساحل سمندر پر جرثومے کی شکل میں موجود کیچڑ میں سے کس کا چھوٹا ٹکڑا مچھلی کے اندر پہنچتا ہے؟

مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے کھلے سمندر میں پہنچنے والے پلاسٹک کے اجزا کے متعلق یہ واضح نہیں کہ ’بائیوفولڈنگ‘ یا دیگر قوتوں کو انہیں سطح سے نیچے لے جانے میں کتنا وقت لگتا ہے جس کے بعد ان کا سمندر کے فرش تک پہنچنے کا آخری اور طویل سفر شروع ہوتا ہے۔

ان پیچیدہ عوامل کے ہوتے ہوئے ممکن ہے پلاسٹک کی حتمی منزل کے متعلق کوئی پیشین گوئی مشکل نظر آتی ہو۔ لیکن ہم دھیرے دھیرے اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔

لہروں کے دوش پر

اگر آپ کبھی متلاطم پانی پر کشتی میں بیٹھنے ہیں تو گمان گزرتا ہو گا آپ ایک ہی جگہ اوپر نیچے حرکت کر رہے ہیں۔ لیکن دراصل آپ بہت کم رفتار سے لہروں کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس مظہر کو سٹوکس ڈرفٹ Stokes drift کہتے ہیں اور یہ تیرتے ہوئے پلاسٹک پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

0.1 ملی میٹر سے چھوٹے اجزا کے لیے سمندری پانی میں حرکت کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم شہد میں سے گزر رہے ہوں۔ لیکن ایک ملی میٹر سے بڑے پلاسٹک اجزا کے لیے سمندری پانی کی مزاحمت کم ہوتی ہے۔ ہر موج ان بڑے اجزا کو آگے دھکا دیتی جاتی ہے۔

آج کل دوبارہ جانچ پڑتال کے مرحلے سے گزرنے والی ابتدائی تحقیق کے مطابق چھوٹے خوردبینی پلاسٹک اجزا کے مقابلے میں بڑے ٹکڑے تیزی سے سمندر تک پہنچتے ہیں جس کا مطلب ہوا ساحل سمندر پر جہاں آبی مخلوق پائی جاتی ہے وہاں بڑے ٹکڑوں کا تہہ تک پہنچنے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔

تحقیق کے دوران زیادہ توجہ گول شکل کی پلاسٹک اشیا پر صرف کی گئی، لیکن پلاسٹک کا باریک کچرا ہر طرح کی شکل اور سائز میں آتا ہے جن میں طشتریاں، چھڑیاں اور لچک دار فائبر شامل ہے۔ لہریں ان پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک حالیہ جائزے کے مطابق بغیر کروی شکل والے اجزا لہروں کے ساتھ ایک ہی سمت میں چلتے ہیں جو ان کے ڈوبنے کی رفتار میں کمی کا باعث ہو سکتا ہے۔ مزید برآں تجربہ گاہ میں تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ پلاسٹک اشیا کی مختلف شکلیں انہیں دور لے جانے میں کس قدر اثر انداز ہوتی ہیں۔ کم کروی شکل کے ٹکڑوں کا ساحل سے مزید اندر کی طرف جانے کا زیادہ امکان ہے۔

کھو جانے والی پلاسٹک اشیا کے راز سے پردہ اٹھانے والی سائنس ابھی پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہی ہے۔ جیسا پہلے گمان کیا جاتا تھا اس کے برعکس بڑے مائیکروپلاسٹک کے اجزا کو موجیں زیادہ تیزی سے اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں جس کے بعد یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ قطب شمالی اور انٹارکٹکا سمیت دنیا بھر کے سمندروں میں وہ کیوں پائے جاتے ہیں۔

لیکن اونی کپڑے سے جھڑنے والے ریشوں کو ڈھونڈنا گھاس میں سوئی کی تلاش سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔


نوٹ: یہ تحریر دا کنورسیشن کے شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ اصل رپورٹ یہاں دیکھی جا سکتی ہے، جس کے مصنفین بروس سدرلینڈ، مشیل ڈی بینڈیٹو اور ٹون وان دین بریمر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات