کیا پاکستان میں پلاسٹک بیگز پر پابندی ممکن ہے؟

ملک میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک تھیلے استعمال ہوتے ہیں، جو حکام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک تھیلے استعمال ہوتے ہیں(اے ایف پی)

حکومت نے پانچ جون سے پلاسٹک تھیلوں کے اسلام آباد لانے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

حکام کے مطابق یہ وفاقی دارالحکومت کو پولیتھین تھیلوں سے صاف کرنے کی جانب پہلا قدم ہے اور وہ دن دور نہیں جب پلاسٹک بیگ میں خریداری کرنے والا جرم کا مرتکب تصور ہو گا اور پکڑا جائے گا۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کی منصوبہ بندی کے مطابق عید کے بعد اس سلسلے میں عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی اور 14 اگست کے بعد اسلام آباد میں پلاسٹک کے تھیلوں کو سٹاک کرنے، سپلائی کرنے یا خرید و فروخت پرمکمل پابندی ہو گی۔

تاہم، اس ممانعت سے پلاسٹک کی دیگر مصنوعات جیسے کور یا ادویات کی حفاظت کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک یا پلاسٹک کے برتن وغیرہ مستثنٰی ہوں گے۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (پاک ای پی اے) فرزانہ الطاف شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان اقدامات کے علاوہ نئے قوانین بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ ’ایک حتمی تاریخ دینے کے بعد کسی شہری کو اگر پلاسٹک تھیلے میں کوئی سامان اٹھائے پکڑا گیا تو وہ بھی قابل سزا جرم ہو گا۔‘

ان کے مطابق پلاسٹک تھیلوں پر پابندی شہریوں کے لیے عید کا تحفہ ہے، کیونکہ اس کے عوام اور شہر پر اثرات مثبت ہوں گے۔

پلاسٹک تھیلے کا وافر استعمال پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی یا نکاسیِ آب میں رکاوٹ کے علاوہ میڈیکل سائنس کی رو سے انسانی صحت پر منفی اثرات کا حامل ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان کے سینیٹ میں اس بیان نے کہ پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک تھیلے استعمال ہوتے ہیں، نہ صرف ماہرین بلکہ قانون ساز اداروں اور عوام کی اکثریت کو پریشان کردیا تھا۔ حکومت پاکستان اس کوشش میں ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالے، تاہم اس میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک پیغام کے ذریعے بتایا کہ اس (پلاسٹک تھیلوں پر مکمل پابندی) حوالے سے تجاویز وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی ہیں۔

شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا نظام موجود ہے لیکن پلاسٹک بیگز دیہی علاقوں میں زیادہ مشکلات پیدا کر رہے ہیں، جہاں نہ صرف آگہی کی کمی بلکہ صفائی کا کوئی منظم نظام بھی موجود نہیں۔

اسلام آباد کے پوش سکیٹر سے متصل پرانے گاؤں سید پور میں رہائش پذیر سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’دور دراز علاقوں کا تو نہیں پتہ لیکن آپ اسلام آباد کے سید پور کی آبادی اور گلی کوچوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں یا پھر روات اور بارہ کہو کے دیہی علاقوں سے کہ پلاسٹک کے تھیلوں کی وجہ سے گندگی کہاں کہاں تک پھیل جاتی ہے۔‘

کامیابی کے امکانات

وزارت موسمیاتی تبدیلی پر امید ہے کہ اگر قواعد و ضوابط سختی سے لاگو کیے جائیں، تو حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ امید اس حقیقت کے باوجود ہے کہ یومیہ کے حساب سے بڑی مقدار میں پلاسٹک تھیلوں کی سپلائی جاری ہے۔

اسلام آباد میں پلاسٹک کے ذیادہ بیگز راولپنڈی کے راجہ بازار میں بیٹھے بڑے بڑے ڈیلرز ہی مہیا کرتے ہیں۔ راجہ بازار میں ہی ایک ڈیلر مقصود کا کہنا تھا کہ ماہانہ ان سے سات یا آٹھ ٹن کے حساب سے پلاسٹک تھیلے فروخت ہوجاتے ہیں جن میں سے اچھا خاصا مال اسلام آباد کے چھوٹے ڈیلرز خرید کر لے جاتے ہیں۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں پلاسٹک بیگز کے کاروبار سے منسلک ڈیلروں کی تعداد کافی ذیادہ ہے اور ایک ہی دوکان سے ٹنوں میں سپلائی ہو رہی ہے تو مانگ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

فرزانہ الطاف شاہ کا کہنا ہے کہ اگر رسد اور طلب دونوں کو کنڑول کیا جائے یا اسے قابل سزا جرم قرار دیا جائے تو لوگوں کا رجحان بدل سکتا ہے۔

لیکن ماہرین کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ یا ایس ڈی پی آئی سے وابستہ ماحولیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر عمران خالد نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ بہت سے قوانین پہلے سے موجود ہیں جن پر عمل در آمد کرنا مشکل ہے اور فی الحال تو لوگوں کے پاس متبادل بھی موجود نہیں اور تھیلوں کی ضرورت سے انکار بھی مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پلاسٹک کے تھیلے اب باقاعدہ ایک کلچر بن چکا ہے، اس کلچر کی تبدیلی کے لیے سوشل ورک اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے، جو فوری طور پر ممکن نہیں، دوسری بات یہ کہ ماحولیات سے متعلقہ قوانین کو لاگو کرنے کے لیے ایک پیشہ ور ادارے کی ضرورت ہے۔‘

 یاد رہے کہ اپریل میں امین اسلم نے دعویٰ کیا تھا کہ گلگت-بلتستان میں واقع ضلع ہنزہ، خطے میں پہلا علاقہ ہے جس میں پلاسٹک تھیلوں سے پاک ماحول پایا جاتا ہے، اس سے پہلے سیر و سیاحت کے لیے مشہور ہنزہ میں اس قسم کے تھیلوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی حال ہی میں پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن ایک عام مشاہدہ کرنے والے کو آسانی سے نظر آ جاتا ہے کہ خاص علاقوں یا ہوٹلوں میں پولیتھین کا استعمال کچھ کم ضرور ہوا ہے لیکن پابندی کے خاطر خواہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے اور دور دراز علاقوں میں تو ایک عام آدمی کو پتہ ہی نہیں کہ کوئی پابندی بھی لگائی گئی ہے۔

یہ پابندی افریقہ، یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں عائد کی گئی ہے جس سے کچھ فرق ضرور پڑا ہے لیکن پلاسٹک کے تھیلوں کا مکمل خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔ متعدد ممالک میں پلاسٹک تھیلوں کی قیمتیں بڑھانے سے بھی اس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں دکان سے سودا خریدنے کے بعد انہیں گھر لے جانے کے لیے پانچ پینی (تقریباً نو روپے) فی شاپنگ بیگ خریدنا پڑتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ شاپنگ بیگ خریدنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

روز گار کے موقع اور پلاسٹک تھیلے

ایک اندازے کے مطابق پلاسٹک کے تھیلوں کا کاروبار ملکی معیشت میں اربوں روپے کی مارکیٹ رکھتا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے ایک سروے کے مطابق پلاسٹک تھیلوں کی صنعت سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ بلا واسطہ اور تقریبا چھ لاکھ بالواسطہ طور پر منسلک ہیں۔

اسلام آباد میں بھی کئی مزدور اور اور کاروبار اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں تھیلے بنانے کی فیکٹریا ں بھی موجود ہیں۔

ہری پور کے صنعتی علاقے حطار میں واقع ڈائمنڈ پلا سٹک انڈسٹریز کے مالک عریش نے انڈپنڈنٹ اردو سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پابندیوں سے بے شمار لوگوں کا روز گار متاثر ہو گا، معیشت پر بھی منفی اثر پڑے گا اور اگر ایسے قوانیں لاگو کیے گئے تو اربوں روپے کا نقصان ہو گا کیونکہ پاکستان میں کئی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ ’اس لیے یہ بہت مشکل ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایسے قوانین آسانی سے لاگو ہو سکیں۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ پلا سٹک بیگز پر پابندی کے بعد ہی معاشرہ متبادل کی طرف مائل ہو گا۔ ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ اس طرح متبادل روزگار کے مواقع بھی میسر ہو جائیں گے۔ فرزانہ الطاف شاہ کے خیال میں پابندی سے عورتوں کے روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے، کیونکہ دیہی علاقوں میں صرف خواتین ہی کپڑے سے تھیلے بنانا جانتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات