ریٹائرمنٹ قریب، ذہنی پریشانی: شوکت عزیز کا ایک اور خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی اپیل کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کو ایک نیا خط لکھا ہے۔

(ٹوئٹر)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کئی برسوں سے اپنے مقدمے کی سماعت کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن اب تک شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایک نئی درخواست میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سے جلد سماعت کی استدعا کی ہے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ 11 اکتوبر 2018 سےاب تک ان کی درخواست التوا کا شکار ہے اور اب تک ابتدائی مراحل کی کارروائی بھی ممکن نہیں ہوئی۔

دو صفحات پر مشتمل اس خط میں شوکت عزیز صدیقی کا موقف تھا کہ ان کی اپیل میں سماعت کے لیے تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اس کا مناسب سدباب کیا جائے۔

میڈیا رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ چوتھا ایسا خط ہے جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس خطاب میں خفیہ اداروں پر شدید تنقید کی تھی۔

درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت عظمی کو اس عمومی تاثر کو سنجیدگی سے زائل کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آئینی درخواست کو 30 جون 2021 تک زیر التوا رکھنا کسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاکہ میری ریٹائرمنٹ کی تاریخ گزر جائے اور آئینی درخواست چند اہم امور کے حوالہ سے غیر موثر ہو جائے۔‘

اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔

بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جب کہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت عظمیٰ کے اس پانچ رکنی بینچ نے سماعت کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

اپنے خط میں سابق جج نے لکھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کے پیش نظر وہ یہ درخواست کر رہے ہیں نیز وہ کسی امتیازی سلوک کی توقع نہیں رکھتے۔

اس خط کا موضوع ’شنوائی بابت آئینی درخواست 2018/76 ‘ ہے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ 11 اکتوبر 2018 سےاب تک ان کی درخواست التوا کا شکار ہے اور اب تک ابتدائی مراحل کی کارروائی بھی ممکن نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مسلسل التوا کے نتیجے میں وہ اور ان کا خاندان ذہنی پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہیں جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان