برطانوی نظام انصاف بچوں کو پیشہ ور مجرموں میں تبدیل کر رہا ہے

انگلینڈ اور ویلز میں وہ بچے جنہوں نے ابھی تک سیکنڈری سکول میں بھی قدم نہیں رکھا انہیں بھی جرائم پیشہ کہا جا رہا ہے۔ یہ ان بچوں کوزندگی  بھر جرم و سزا کے جال میں پھنسانے جیسی بات ہے۔

ایک مجرمانہ ماضی انسان پر ایسا اثر چھوڑتا ہے جو زندگی بھر حاوی رہتا ہے۔ آپ مجرموں کی بحالی کے پروگرامز کو چھوڑ دیں، جرائم پیشہ ماضی رکھنے والا کوئی بھی فرد آپ کو بتا سکتا ہے کہ سزا کے بعد کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔ آپ پر نوکری کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، مواقع ختم اور ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ برطانیہ میں ہم یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ برطانوی بچوں سے یہ مواقع چھین رہے ہیں۔

انگلینڈ اور ویلز میں کم عمر بچے جو ابھی تک سیکنڈری سکول بھی نہیں پہنچے انہیں بھی پیشہ ور مجرم سمجھا جا رہا ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں جرائم کی ذمہ داری ڈالنے کی عمر کی حد تمام یورپی ممالک سے کم ہے۔

جرمنی، سویڈن اور پرتگال میں 14 سال سے کم عمر کوئی بچہ کریمنل جسٹس سسٹم کی دسترس میں نہیں آسکتا، برطانیہ میں دس سال جتنے کم عمر بچوں کو بھی تقریبا روزانہ کی بنیاد پر سزا سنائی جا رہی ہے۔

کریمنل جسٹس سسٹم پرسخت تنقید کرتے ہوئے انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کو اب بند کرنا ہو گا۔

برابری اور انسانی حقوق کمیٹی (ای ایچ آر سی) نے اقوام متحدہ کی تشدد مخالف کمیٹی کو بتایا کہ بچوں کو اس طرح عدالتی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑنا ان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ ان کو بطور مجرم دیکھا جانا بلوغت کے بعد بھی ان میں مجرمانہ رجحانات کو فروغ دے سکتا ہے۔  

اعداد و شمار بھی اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ایسے بچوں میں بلوغت کے بعد مجرمانہ سرگرمیوں کا تناسب 41 فی صد ہے۔

یورپ میں یہ سب سے زیادہ ہے۔ایک دہائی قبل یہ اس بھی بلند تھا۔

ہوورڈ لیگ برائے پینل اصلاحات کے مطابق جیلوں میں قید بچوں کی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجود برطانیہ میں یہ تعداد ابھی تک مغربی یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ نو عمر بچوں کو قید تنہائی میں رکھنے اور برقی جھٹکے دینے جیسےپریشان کن واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ 

بچوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کرنا، انہیں غصے اور مایوسی کی ڈھلوان پر تنہا چھوڑ دینا، انہیں اپنے ہم عمر لوگوں سے دور رکھنا شاید ووٹرز کو تو خوش کرتا ہو لیکن اس سے بالکل الٹ مقصد حاصل ہو رہا ہے۔ یہ ان کی زندگی برباد کر دیتا ہے اور انہیں سزا اور جرائم کے جال میں پھنسا دیتا ہے۔

ای ایچ آر سی نے دس سال کی ذمہ داری کی قانونی حد کو نقصان دہ قرار دیا ہے اور زور دیا ہے کہ یہ باقی اقوام کے برابر لائی جائے تاکہ سزا و جرائم کے گھن چکر کو گھمبیر ہونے سے روکا جا سکے۔

قانونی ذمہ داری کی عمر 15 سال کر دینا، تاکہ بچوں کے پاس اپنی زندگی کو سنوارنے، اپنے لیے بہتر راستہ چننے کے مزید پانچ سال ہوں، وہ آسان ترین کام ہے جو یہ حکومت کر سکتی ہے۔

جب ایک دس یا گیارہ سال کا بچہ کوئی جرم کرتا ہے تو اس کی یہ حرکت مستقبل میں اس کی فلاح کے کے بارے میں شک و شبہات پیدا کرتی ہے۔

حکام کی جانب سے پہلا رد عمل اس کی گرفتاری یا قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ جاننا چاہیے کہ وہ بچہ اس کم عمری میں یہ غلطی کیوں کر رہا ہے۔

بچوں کو اس کی سزا دینے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس نے ایسا جرم کیوں کیا ہے جس کی اسے سمجھ بھی نہیں ہے۔

اگر حکومت جرائم پر قابو پانا چاہتی ہے تو ایسے نوجوان مجرم ان کی توجہ کا مرکز ہونے چاہیں۔

بجائے ان کو جیل میں ڈال کے ان پر واپسی کے دروازے بند کرنے کے، جو پیسہ اس ساری قانونی کارروائی پر خرچ ہوگا وہ ان کی فلاح پر خرچ ہونا چاہیے۔ یہ کام مسئلےکے حل کے لیے مددکار ہو گا۔

ذمہ داری کی عمر کو 15 سال تک کرنا شاید مالی سطح پر ہی ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ