پی اے سی: شہباز شریف کے ہٹنے پر پی ٹی آئی کو اعتراض کیوں؟

شہباز شریف کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے دستبرداری اور رانا تنویر حسین کو چیئرمین بنانے کے فیصلے کو حکمران جماعت نے مسترد کردیا ہے۔

شہباز شریف نے گذشتہ روز اچانک پی اے سی چیئرمین کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ فائل تصویر: روئٹرز

جمعرات کو پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں اُس وقت اتھل پتھل ہوئی، جب حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اچانک خود کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین کے عہدے سے الگ کر دیا اور ان کی جگہ پارٹی نے سینیئر رہنما رانا تنویر حسین کو پی اے سی کا چیئرمین تعینات کر دیا۔

حکومت رانا تنویر حسین کی بطور پی اے سی چیئرمین تعیناتی پر بالکل متفق نہیں، جس کا اعلان وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر یہ اصول طے ہے کہ پی اےسی چیرمین اپوزیشن لیڈر ہوگا تو رانا تنویر کیسے؟

یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ 2006 میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی (سی او ڈی) کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی ہوگا، اس کے بعد سے یہی روایت چلی آرہی ہے۔

موجودہ پی اے سی کے کُل 30 ارکان میں سے 16 ارکان اپوزیشن جماعتوں (ن لیگ، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل) سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 14 کا تعلق حکمران جماعت پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتوں سے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینئر حکومتی وزیر شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ پیپلز پارٹی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی اے سی کی تبدیلی پر ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا  کہ پی اے سی چیئرمین کی اس اچانک تبدیلی پر کیا مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارلیمان کو اعتماد میں لےگی؟

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کل کے فیصلے نے بےشمار سوالوں کو جنم دیا ہے، پی اے سی پارلیمنٹ کی سب سے اہم کمیٹی ہے اور پارلیمانی لیڈر کی اچانک تبدیلی سے پارلیمنٹ کی کارروائی متاثر ہوتی ہے۔

 شاہ محمود قریشی تو حکومتی ترجمان بن کر اس معاملے پر اپنا اعتراض بیان کر گئے لیکن کیا یہ اعتراض جائز ہے؟

اس کے لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے کیا، یہ کیسے کام کرتی ہے اور پی ٹی آئی حکومت کو پہلے شہباز شریف کو اس کا چیئرمین بنانے اور اب ہٹ جانے پر اعتراض کیوں ہے؟

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اس کا کردار

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے، جسے سب سے اہم پارلیمانی کمیٹی قرار دیا جاتا ہے، جو حکومتی اخراجات اور اس کے ریونیو کے آڈٹ پر نظر رکھتی ہے۔

وزارتوں، ڈویژنز، کارپوریشنز، آزاد اور نیم خودمختاروں کی کارکردگی کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی جانچ پڑتال بھی یہی کمیٹی کرتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 171 کی رو سے آڈیٹر جنرل وفاق کے  مالی معاملات سے متعلق اپنی رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کرتے ہیں جو اسے پارلیمان کو بھجواتے ہیں، جہاں سے قومی اسمبلی کے قاعدہ 177 دو کے تحت اس رپورٹ کو  پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو غور کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔

کسی بھی حوالے سے ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کے معاملات قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے کا اختیار بھی اس کمیٹی کو حاصل ہے۔

قصہ مختصر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس بات کی  پابند ہے کہ وہ اس بات کو دیکھے کہ عوامی سرمایہ درست طورپر خرچ کیا گیا اور جس مقصد کے لیے اسے جاری کیا گیا تھا، یہ اسی مقصد میں لگایا گیا۔

گذشتہ پانچ سالہ دور میں پیپلز پارٹی رہنما سید خورشید شاہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے۔

موجودہ دورِ حکومت میں یہ تنازع کیوں اٹھا؟

پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین نامزد کیا تاہم حکومت کو اس تعیناتی پر اعتراض تھا کہ شہباز شریف چونکہ بطور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نیب کیسز میں ملوث ہیں، لہذا وہ اس اہم پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کے اہل نہیں ہیں۔

آخر کار طویل مذاکرات اور بیٹھکوں کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں حکومت نے شہباز شریف کو کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر رضامندی ظاہر کردی۔

تاہم بعدازاں شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران عمران خان کو ’سلیکٹڈ وزیراعظم‘ کہہ کر شدید تنقید کیے جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان انہیں پی اے سی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے پر تل گئے، لیکن اس حوالے سے قومی اسمبلی قواعد میں کوئی شق موجود نہ ہونے پر حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے نظر آئے، کیونکہ پی اے سی کے چیئرمین کو عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا ہے، دوسری جانب چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا بھی کوئی قانون موجود نہیں، ہاں لیکن وہ خود مستعفی ضرور ہوسکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز  شہباز شریف کی اچانک دستبرداری اور رانا تنویر حسین کی پی اے سی چیئرمین کے طور پر نامزدگی نے کئی سوالات کھڑے کردیے اور این آر او لیے جانے کی بازگشت بھی سنائی دی۔

اگرچہ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ شہباز شریف بذات خود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بننے کے خواہش مند نہیں تھے اور انہوں نے یہ عہدہ مشترکہ حزب اختلاف اور پارلیمانی ایڈوائزری گروپ کے اصرار پر قبول کیا تھا۔

تاہم مبصرین اس فیصلے کو شریف خاندان کو اہم عہدوں سے الگ کرنے کے لیے دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی اعتراض کو محض ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کہا جارہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست