کیا جاپانی ایوانِ وزیر اعظم بھوتوں کی وجہ سے خالی پڑا ہے؟

جاپانی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کی دیکھ بھال پر ہر سال 16 کروڑ ین سے زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر کئی سالوں سے یہاں کوئی وزیراعظم نہیں ٹھہرے۔

سوری کوٹی نامی یہ رہائش گاہ 2012 سے غیر آباد ہے(تصویر: وکی پیڈیا)

تقریباً ایک دہائی سے جاپان کے آنے والے تمام وزرائے اعظم نے درالحکومت ٹوکیو کی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے سے انکار کیا ہے چاہے اس کا مطلب اپنے عہدے سے جڑے اس اہم استحقاق کو مسترد کرنا ہو۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں وزیر اعظم کے دفتر سے منسلک اس آرٹ سے مزین مینشن کی دیکھ بھال پر ہر سال 16 کروڑ ین (دس لاکھ پاؤنڈ) سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔

سوری کوٹی نامی یہ رہائش گاہ 2012 سے غیر آباد ہے جب جاپان کے سب سے طویل عرصے تک خدمت انجام دینے والے وزیر اعظم شنزو آبے دوسری بار اقتدار میں آئے تھے۔

شنزو آبے نے ٹوکیو میں اپنے نجی گھر سے دفتر جانے کے لیے 15 منٹ کی مسافت طے کرنے کو ترجیح دی۔ آبے کے اس فیصلے نے ان گزرے ہوئے برسوں کے دوران کئی افواہوں اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا جن کے مطابق اس کشادہ رہائش گاہ میں گھر جیسی آسائش نہیں تھی یا اس کی مافوق الفطرت وجوہات تھیں۔

اس مینشن کے حوالے سے بھوت پریت کی کہانیاں بھی موجود ہیں اور یہ افواہیں اس قدر پھیلیں کہ وزیر اعظم کے دفتر کو ایک سرکاری بیان جاری کرنا پڑا جس میں وضاحت کی گئی کہ شنزو آبے اس گھر میں بھوتوں کی موجودگی کی اطلاعات سے ’بے خبر ہیں۔‘

جاپان کے موجودہ وزیر اعظم یوشی ہڈے سوگا کو اپنے پیش رو آبے کے نقش قدم پر چلنے کے اپنے فیصلے پر حزب اختلاف کے دباؤ کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم سوگا نے بھی اپنے دفتر سے گھر جانے کے لیے ایک مختصر سفر کا انتخاب کیا اور وہ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد بھی ’سوری کوٹی‘ میں منتقل نہیں ہوئے۔

2011 سے 2012 تک وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے یوشی ہیکو نوڈا اس رہائش گاہ میں رہنے والے آخری وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 7.3 شدت کے زلزلے کے ایک ماہ بعد یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تھا۔ اس زلزلے سے شمال مشرقی جاپان میں عمارات کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ وزیر اعظم کو ہنگامی اجلاس کے لیے اپنے دفتر پہنچنے میں 20 منٹ لگتے ہیں۔

نوڈا، جو اب اپوزیشن کے رکن پارلیمنٹ ہیں، نے پوچھا: ’اگر ٹوکیو میں زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ ٹریفک شاید چلنے کے قابل نہ ہو۔ اس میں 20 منٹ سے زیادہ وقت لگے گا۔ لیکن وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے دفتر تک پیدل آنے میں کوئی وقت نہیں لگے گا۔‘

انہوں نے وزیر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’یہ رہائش گاہ خالی پڑی ہے لیکن اس کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ 16 کروڑ ین لاگت آتی ہے۔ میں سمجھ نہیں سکتا کہ آپ وہاں کیوں منتقل نہیں ہو جاتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ ہم ابھی تک وزیر اعظم سوگا کی جانب سے اس سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہونے پر ہچکچاہٹ کے پیچھے پوری کہانی نہیں جانتے لیکن اس مینشن کے بارے میں ماضی کی کہانیاں کئی سال پرانی ہیں جو خونی تاریخ اور اس زمین پر متعدد واقعات سے منسلک ہیں جہاں یہ عمارت آج کھڑی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے دہلی میں ’نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری‘ میں جاپانی امور کے ماہر ڈاکٹر راجا رام پانڈا نے وضاحت کی کہ ایسی بھی افواہ ہے کہ جونیچیرو کوئزومی (2001 سے 2006 تک جاپان کے وزیر اعظم) نے 2001 میں وزیر اعظم بننے کے بعد اس گھر کو بھوت پریتوں سے پاک کرنے کے لیے ایک پجاری کو یہاں بلایا تھا۔

پانڈا نے کہا: ’اس وقت سے اس بارے میں یقین پختہ ہو گیا اور جاپانی میڈیا اور اپوزیشن نے اس مسئلے کو بارہا اٹھایا جب یکے بعد دیگرے کئی وزرائے اعظم اس گھر میں رہنے سے ہچکچاتے رہے۔‘

اس گھر کی خونی تاریخ کا آغاز 1932 میں اس وقت ہوا جب بحری افسران کے ایک گروپ نے فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم سوئوشی انوکائی کو بے دردی سے یہاں قتل کر دیا۔ چار سال بعد ایک اور بغاوت کی کوشش کی گئی جس میں اس گھر میں اس وقت کے وزیر اعظم کیسوکے اوکاڈا کے بہنوئی سمیت پانچ افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ 

کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں ابھی بھی اس خونی تاریخ کی یادیں موجود ہیں جن میں دیواروں پر گولیوں کے نشانات اور آگ کے نقصان کے ثبوت محفوظ ہیں۔

سابق وزیر اعظم کوئزومی کے پیشرو یوشیری موری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک بار اپنے جاننے والے سے اعتراف کیا کہ وہ اس رہائش گاہ میں فوجیوں کے مارچ اور بھوتوں کی آوازوں سے بیدار ہو جاتے تھے۔

رہائش گاہ کو استعمال نہ کرنے کے حوالے سے مزید چہ مگوئیاں بھی کی گئیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مینشن بہت بڑا ہے اور منعظم گھروں کے مقابلے میں اس کا انتظام سنبھالنا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے جس کے جاپانی لوگ عادی ہیں۔

لیکن ابھی بھی ماضی کی کہانیوں کا اثر برقرار ہے، اور وزیراعظم سوگا نے پارلیمانی بجٹری کمیٹی کو مینشن سے دور رہنے کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی ہے۔

پانڈا نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات، جن کو بطور رہنما مثالی کردار ادا کرنا چاہیے، ان غیر سائنسی عقائد اور خوف کو ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاپان میں جدیدیت اور روایات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ہر ایک کی اپنی ایک جگہ ہے جن کو مطلوبہ توجہ، احترام اور پہچان حاصل ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا