پاکستان میں کسی پبلک مقام پر نکل جائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کرونا (کورونا) وائرس کو کتنی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ عوام کو اس کا احساس تب ہوتا ہے جب خدانخواستہ ان کا کوئی قریبی عزیز و اقارب بیمار ہو جائے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کرونا میں متبلا لوگوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ آج سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل400 سے 500 لوگ کو روزانہ کرونا ہو رہا تھا، اب پچھلے کچھ دنوں سے پانچ سے ساڑھے پانچ ہزار متاثر ہو رہے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہےکہ پاکستان کے کئی علاقوں میں چھوٹے بچے بھی کرونا کی زد میں آ رہے ہیں۔ یہ دنیا بھر کا بھی رجحان ہے۔
اسلام آباد میں ایک سے 12 سال کی عمر کے 95 بچے کرونا سے متاثر ہوئے۔ مریضوں میں اضافے کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کے برعکس آپ کہیں بھی نکل جائیں تو 95 فیصد لوگ بغیر ماسک کے ملیں گے۔ ان لوگوں کو یہ سمجھانا بڑا ہی مشکل ہے کہ یہ ایک سنگین اور خطرناک معاملہ ہے۔ لوگوں سے بات کریں تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔
پچھلے سال جب کرونا بہت پھیلا تو کوئی کہتا تھا کہ یہ امیروں کی بیماری ہے، کوئی اسے حکومت کی ایک کہانی بتاتا، کوئی اسے ادویات فروخت کرنے کی کوشش قرار دیتا۔ بس اسی طرح کی قیاس آرائیاں چلتی رہیں۔ آخر کار پاکستان میں پولیو ویکسی نیشن کو بھی 20 سے 30 برس ہو گئے ہیں لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ویکسین نہیں لگائی جاتی اور پولیو ورکرز کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ جب کسی علاقے کے لوگ یہ طے کر لیں کہ یہ اسلام یا خواتین کے خلاف کام ہو رہا ہے تو قصہ مختصر وہاں کے لوگوں کو سمجھانا کہ یہ کتنا خطرناک مرض ہے، انتہائی مشکل ہدف بن جاتا ہے۔
حکومت سے ہی ہم سنتے ہیں کہ تیسری لہر تیسری قسم کے برطانوی وائرس کی وجہ سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ خطرناک قسم ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ سے آنے والی فلائٹس کے ذریعے جو مسافر آئے ہیں، ان کے ذریعے کرونا وائرس پھیلا ہے۔
حکومت نے اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ایئرپورٹ سے نکلے ان کا کرونا کا ٹیسٹ منفی آیا، اس کے بعد انہیں خود کو آئسولیٹ کرنا تھا لیکن یہ نہیں ہوا۔ پھر ہوا یہ کہ برطانیہ سے فلائٹس کے آنے پر پابندی لگا دی گئی تو لوگ برطانیہ سے کسی اور ملک پہنچ جاتے اور وہاں سے پاکستان آنے لگے۔ ایک طرف لوگ مانتے نہیں ہیں، جتنا بھی ان کو کہا جائے دوسری طرف نت نئے طریقے نکالتے ہیں اور حکومتی اقدامات کا کوئی نہ کوئی توڑ نکال لیتے ہیں۔
حکومت نے بھی قدرے جلدی میں سکول، شادی ہالز کھول دیے۔ انہیں دوبارہ بند کرنا پڑا۔ یقینًا حکومت کو اقتصادی صورت حال بھی دیکھنی ہے کہ لوگوں کا ذریعہ معاش بھی متاثر نہ ہو۔
حکومت کے وسائل اور تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا قیام قابل تعریف اقدام ہے جہاں سے درست اعداد و شمار مل جاتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ بنا کہ حکومت نے جو بھی نظام بنایا اس سسٹم میں رہتے ہوئے ویکسین لگانے کی مہم بھی شروع کی، اس کے باوجود کرونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہاں پاکستان کے دارالحکومت کے کچھ مناظر ملاحظہ فرمائے:
آپ بلیو ایریا کے ایک بینک میں داخل ہوں تو کسی نے ماسک نہیں پہنا۔ آپ کسی کو بتائیں کہ ماسک پہنیں تو سب اس طرح دیکھتے ہیں جیسے آپ مریخ سے آ کر عجیب بات کر رہے ہیں۔ ماسک پہننے کی روش ہی موجود نہیں ہے، جو کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ ماسک پہنیں۔ اس کا نفاذ بھی کرنا ناممکن ہے۔
اسلام آباد میں ٹریفک پولیس کے دفتر گئے جہاں سے لائسنس بنوانا ہے۔ آپ دو تین جگہوں پر جاتے ہیں لیکن مشکل سے ہی کسی نے ماسک پہنا ہے۔ پھر آپ ایک اعلیٰ افسر کے دفتر جاتے ہیں وہ بڑے اچھے طریقے سے پیش آتے ہیں لیکن ماسک نہیں پہنا۔ ان کے اردگرد بیٹھے لوگوں نے بھی ماسک نہیں پہنا۔ حد یہ ہے کہ ایک صاحب بڑی گاڑی سے بغیر ماسک اترتے ہیں اور ان افسر کے کمرے میں آتے ہیں تو وہ بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوتے ہیں اور دونوں حضرات نے ماسک نہیں پہنا۔
بلیو ایریا میں ایک عمارت کی تیسری منزل پر پہنچتے ہیں تو صرف دو سے تین فیصد لوگوں نے ماسک پہنا ہے۔
پھر آپ دیکھیں کہ 25 مارچ کو پریڈ ہوتی ہے۔ بڑی شاندار پریڈ تھی۔ اس میں جو لوگ شامل ہیں آرمڈ فورسز کے لوگ، افسران، فلوٹس میں سے کسی نے ماسک نہیں پہنا۔ صرف حاضرین نے ماسک پہنا۔ بہت قریب لوگ کھڑے ہیں لیکن کسی نے ماسک نہیں پہنا (ان میں سے جو فلوٹس میں ترانے گا رہے تھے ان میں سے ایک کو کرونا ہو بھی گیا ہے)
آگے چلیں تو وزیر اعظم عمران خان کو بھی کرونا ہوگیا۔ وہ چوتھے دن میٹنگ بھی کر رہے ہیں اور اس کے بعد انفارمیشن کے دو قریبی لوگ سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر فیصل جاوید اس کی تصویر ٹویٹ کرتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ یہ بڑی نارمل بات ہے۔ پھر ایک طوفان اٹھتا ہے اور آپس میں بات کی جاتی ہے کہ ٹویٹ ڈیلیٹ کریں یا نہ کریں۔ پھر یہ طے ہوتا ہے کہ اس کو اب ڈیلیٹ کریں گے تو اور بھی بات خراب ہوگی۔
اسلام آباد کے پارکس میں جائیں تو کچھ تو بند ہیں لیکن زیادہ تر میں شہریوں کا رش اسی طرح دیکھنے میں آ رہا ہے جس طرح اختتام ہفتہ پر کرونا سے پہلے ہوتا تھا۔ نہ کسی نے ماسک پہنا ہے اور نہ ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال یہ حال ہے دارالحکومت کا۔ آگے بڑھیں تو یہ طے کیا گیا تھا کہ 26 مارچ کو نہ صرف مسلم لیگ ن ریلی کی صورت میں نیب کے دفتر جائے گی بلکہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ ہم بھی ساتھ جائیں گے۔ کسی کو کوئی غرض نہیں کہ عوام کی زندگی کے ساتھ کیا ہوگا۔ اگر ان کو روکا جائے تو پھر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپوزیشن پریس کانفرنس بھی کر رہی ہے البتہ پیپلز پارٹی نے کچھ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ وہ 4 اپریل کا جلسہ منسوخ کرتے ہیں۔
دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کی صورت حال ہے۔ آپ دیکھیں تو سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے اس طرح کے قصوں سے کہ لوگ ماسک پہننا نہیں چاہتے ہیں، ایس او پیز پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ اس تمام صورت حال میں عقل کیا بتاتی ہے کہ جو حکومت اور ریاست ہے اس کو تو دنیا بھر کی سب سے بڑی ایس او پی چاہے۔ آپ نے ویکسین لگائی ہو چاہے آپ نے اینٹی باڈیز لی ہوں لیکن آپ نے ماسک لازمی پہننا ہے اور اس پر عمل کرانا ہے۔
پاکستان میں ایک عجب ریت چلی ہے کہ ماسک نہیں پہننا۔ اسد عمر صاحب ہر چند دن میں جب کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ ایک ٹویٹ یا پریس کانفرنس کر دیتے ہیں کہ اگر آپ نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو انہیں سختی کرنا پڑے گی۔ جب سے کرونا شروع ہوا ہے، اگر گنا جائے تو اسد عمر دو درجن سے زائد پریس کانفرنسیں کر چکے ہیں کہ وہ سختی کریں گے۔ اس ہفتے میں تین چار مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ سختی کی جائے گی تو خدارا یہ سختی کب ہوگی؟ جب نمبرز بڑھ کر روزانہ 10 سے 20 ہزار ہوں گے؟
ہم نے وزیر داخلہ شیخ رشید سے بات کی کہ تو انہوں نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں وہ سختی نہیں کر رہے، لوگ ماسک نہیں پہن رہے، لوگ سنتے نہیں ہیں، آپ بتائیں ہم کیا کریں؟
اس طرح کے رویئے سے تو پاکستانیوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سب حکومتوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ بہت سختی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تو ہم بہت تباہی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔