لاڑکانہ عوامی اتحاد دوبارہ فعال: کیا پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم ملے گا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا موقف ہے کہ جے یو آئی (ف) نے حالیہ سینیٹ الیکشن کے بعد غصے میں آکر لاڑکانہ عوامی اتحاد کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ان کی جماعت کو اس اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے  والد اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری  (فائل تصویر: اے ایف پی)

سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اپنے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں آنے والے بلدیاتی اور عام انتخابات میں مشکل وقت دینے کے لیے مخالف سیاسی پارٹیوں نے تین سال قبل بننے والے لاڑکانہ عوامی اتحاد کو فعال کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کہتے ہیں کہ یہ اتحاد غصے میں فعال کیا گیا ہے اور ان کی جماعت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 لاڑکانہ عوامی اتحاد 2018 میں سابق پی ڈی ایم رہنما حاجی منور عباسی نے پی پی پی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔ اس سیاسی اتحاد میں ملک کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، ڈاکٹر صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ مسز ناہید عباسی کی پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز، جماعت اسلامی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ 

لاڑکانہ عوامی اتحاد کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا ہے کہ نہ صرف آنے والے بلدیاتی انتخابات بلکہ عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن کے اضلاع میں مشکل وقت دیا جائے گا۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا: ’ہمارے اس اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیاں مقامی سیٹ اپ کے تحت اتحاد میں شامل ہوئی ہیں اور یہ اتحاد اس لیے بنایا گیا تھا کہ پی پی پی نے گذشتہ کئی سالوں سے جس طرح لاڑکانہ اور آس پاس کے اضلاع کو نظرانداز کیا ہے تو الیکشن میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم ہو۔ اب اس اتحاد کو دوبارہ فعال کرنا چاہتے ہیں۔‘

ڈاکٹر صفدر عباسی کے مطابق: ’پہلے مرحلے میں قمبر، شہدادکوٹ اور بعد میں لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن کے مختلف اضلاع میں اتحاد کو منظم کیا جائے گیا۔ قمبر شہدادکوٹ اولڈ لاڑکانہ حلقے کا حصہ رہا ہے اس لیے پہلے وہاں اتحاد کو منظم کریں گے۔‘

اتوار کو لاڑکانہ کے کوٹ دراب میں ہونے والے لاڑکانہ عوامی اتحاد کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ رمضان المبارک میں معززین پر مشتمل تحصیل سطح پر افطار ڈنر کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ 

ڈاکٹر صفدر عباسی کے مطابق 2019 میں لاڑکانہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 11 پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں لاڑکانہ عوامی اتحاد کی سپورٹ کے باعث گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے امیدوار معظم علی عباسی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو کو بدترین شکست دی تھی۔ 

جمیل سومرو کو پانچ ہزار 536 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی اور پی پی پی کو اپنے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں ملنے والی شکست سے بڑا دھچکا لگا تھا۔  

ڈاکٹر صفدر عباسی کے مطابق: ’اس کے علاوہ گذشتہ عام انتخابات میں لاڑکانہ کے مختلف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر پی پی پی کو اس اتحاد نے مشکل وقت دیا تھا اور آنے والے وقت میں شمالی سندھ کے کئی اضلاع میں پی پی پی کو کئی حلقوں پر انتہائی مشکل وقت دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاڑکانہ عوامی اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں کے مقامی سطح پر اپنے ووٹ بینک کے ساتھ اتحاد میں شامل جے یو آئی (ف) کی موجودگی اس اتحاد کی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔  

آٹھ اضلاع سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، خیرپور، قمبر شہدادکوٹ اور کشمور پر مشتمل شمالی سندھ میں جے یو آئی (ف) کی انتہائی مضبوط موجودگی ہے۔

صحافی اور محقق ضیا الرحمٰن کہتے ہیں کہ سرکاری طور پر تو کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے مگر آزادانہ اندازے کے مطابق صرف شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں جے یو آئی (ف) کے ایک ہزار سے زائد دینی مدارس ہیں، جو اس جماعت کی سیاسی قوت ہیں۔  

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جے یو آئی (ف) نے حالیہ سینیٹ الیکشن کے بعد غصے میں آکر لاڑکانہ عوامی اتحاد کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’جے یو آئی (ف) کو اعتراض ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جی ڈی اے کا حصہ ہوتے ہوئے کیسے اپنے امیدوار کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنایا، تو میں جے یو آئی (ف) کی قیادت سے پوچھتا ہوں کہ جی ڈی اے کا حصہ ہوتے ہوئے وہ کیسے پی ٹی آئی کے ساتھ اس اتحاد کو فعال کررہی ہے؟‘

بقول سعید غنی: ’جے یو آئی (ف)  نے 2019 میں لاڑکانہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 11 پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو سپورٹ کیا تھا اور اب وہاں پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہی ہے۔ یہ کوئی نیا اتحاد نہیں ہے اور پی پی پی کو اس اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آنے والے الیکشن میں ہی پتہ چلے گا کہ یہ اتحاد کتنا مضبوط ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان