لاڑکانہ کے علاوہ سندھ میں پی آئی اے دفاتر بند

سٹاف ایسوسی ایشن کے مطابق ’انتظامیہ ایک ساتھ سب کو ٹرانسفر نہیں کررہی، انہیں اندازہ ہے کہ اس سے احتجاج ہوگا۔ انتظامیہ نے پی آئی اے ہیڈکوارٹر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اسی لیے بڑے پیمانے پر ٹرانسفر کیے جارہے ہیں۔‘ 

(اے ایف پی)

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی سینئر سٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکرٹری صفدر انجم نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ روز انتظامیہ نے پی آئی اے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے سندھ بھر سے280 افسران اور عملے (بشمول خواتین) کو کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر کردیا ہے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے صفدر انجم نے بتایا: 'ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ بڑے تعداد میں افسران اور عملے کے افراد کو سندھ بھر سے اسلام آباد بھیجا گیا ہو۔ پچھلے کچھ عرصے سے پی آئی اے انتظامیہ مسلسل افسران اور عملے کو ٹرانسفر کررہی ہے'۔ 

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ٹرانسفر کرنے کے ساتھ پی آئی اے انتظامیہ نے گزشتہ چند سالوں میں بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف بھی کردیا ہے۔  

'انتظامیہ ایک ساتھ سب کو ٹرانسفر نہیں کررہی، کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ ایسا کرنے سے احتجاج ہوگا۔ انتظامیہ نے پی آئی اے ہیڈکوارٹر کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر ٹرانسفر کیے جارہے ہیں'۔ 

اتنی بڑی تعداد میں ٹرانسفر کرنے کے بعد پی آئی اے کے لاڑکانہ کے علاوہ تمام آفس بھی بند کردیے گئے ہیں۔  

کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر کی جانے والی ایک خاتون افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ حاملہ ہیں اور چھٹیوں پر ہیں، اسی دوران انھیں ٹرانسفر کردیا گیا ہے۔

'میرے شوہر کراچی میں نوکری کرتے ہیں، بڑا بیٹا اپنی تعلیم بھی یہاں حاصل کررہا ہے۔ اب میری ٹرانسفر کے بعد میرا شوہر تو اسلام آباد نہیں جا سکتا، بیٹے کی تعلیم کا کیا ہوگا۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ چاہتی ہے ہم خود ہی استعفیٰ دے دیں اور انھیں نکالنا نہ پڑے'۔ 

دوسری جانب جب پی آئی اے انتظامیہ کا موقف لینے کے لیے پی آئی اے کے جنرل منیجر پبلک افیئر عبداللہ خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں حیرت ہے میڈیا ایسی خبر میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے جو ایک عام بات ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے عبداللہ خان نے کہا: 'ٹرانسفر، پوسٹنگ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ہوتی ہیں، اس میں خبر کیا ہے؟ بالکل گزشتہ روز پی آئی اے نے 280 نہیں بلکہ 265 ملازمین، جن میں مارکیٹنگ اور کمرشل کے ملازم شامل ہیں، کو اسلام آباد ٹرانسفر کیا ہے'۔ 

 کیا سندھ بھر میں پی آئی کے آفس بھی بند کردیے گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'ہاں آفس بھی بند کردیے گئے ہیں۔ ان تمام آفسز میں کوئی کام نہیں ہورہا تھا تو پھر آفس کیوں کھُلے ہوں؟ اس لیے بند کردیے گئے ہیں'۔ 

ٹرانسفر کے اسباب پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا: '1960 سے 1980 کی دہائی تک پی آئی اے کے آپریشن کا زیادہ کام کراچی میں تھا تو ملازمین کی اکثریت بھی کراچی سے تھی، مگر اب آپریشنز کا زیادہ کام لاہور اور اسلام آباد میں ہے، کراچی میں نہیں۔ تو اگر کراچی سے ملازمین کو عارضی طور پر اسلام آباد بُلایا جاتا ہے تو طعام و قیام پر پی آئی اے کو ایک خطیر رقم ادا کرنی پڑتی ہے، اس لیے اب ملازمین کو مستقل طور پر اسلام آباد ٹرانسفر کردیا گیا ہے'۔ 

سینئر سٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں عبداللہ خان نے کہا: 'جو لوگ سینئر سٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے حوالے سے دعویٰ کررہے ہیں، ان کا تو یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے، یہ ایک غیرقانونی ایسوسی ایشن ہے، جس کے سربراہ خود ایف آئی اے کے کیسوں میں مطلوب ہیں۔ اگر سی بی اے کچھ کہتی تو اور بات ہے، مگر میں ان (ساسا) کو کوئی جواب نہیں دینا چاہتا'۔

پی آئی اے ہیڈکوارٹر کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے والے سوال پر جنرل منیجر پبلک افیئر کا کہنا تھا 'دیکھیں جہاں زیادہ کام ہوگا، ہیڈکوارٹر بھی وہیں ہوگا، اس وقت زیادہ کام لاہور اور اسلام آباد میں ہے۔ تو اس کا فیصلہ مستقبل میں ہوگا'۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی آئی اے کے مطابق اس وقت فضائی کمپنی کے پاس 15000 ریگولر اور 2500 عارضی ملازمین ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں خسارہ کہہ کر بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔ فروری 2020 میں  ایوی ایشن ڈویژن نے قومی اسمبلی میں تحریری جواب  جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ قومی ائیر لائن کو 18 بین الاقوامی روٹس پر خسارے کا سامنا ہے۔ 

ایوی ایشن کے تحریری جواب کے مطابق: 'پی آئی اے کو کوپن ہیگن روٹ پر 20 کروڑ، لاہور لندن روٹ پر 14 کروڑ، ، ٹورنٹو روٹ پر 55 کروڑ،اسلام آباد لندن روٹ پر 41 کروڑ، پیرس بارسلونا روٹ پر 93 کروڑ ، پیرس میلان روٹ پر 74 کروڑ، سیالکوٹ لندن روٹ پر 17 کروڑ ، بیجنگ ٹوکیو روٹ پر 73 کروڑ، کراچی لندن روٹ پر 55 کروڑ اور فیصل آباد جدہ روٹ پر 12 کروڑ روپے نقصان کا سامنا ہے'۔ 

گزشتہ مہینے حکومت پاکستان نے کرونا وبا کے بعد 736 ملین روپے کا نقصان ہونے کے باعث قومی ایرلائن کی جاپان کے لیے فلائٹس بند کرنے، تمام ملازمین کو فارغ کرنے اور ادارے کے زیر استعمال تمام دفاتر کو خالی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 

ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ جنوب کے بجائے اب ملک کے شمال میں زیادہ فلائٹ چلتی، جن میں اسلام آباد لاہور کے علاوہ پشاور، سوات، چارسدہ، مردان، نوشہرہ، پنڈی، جہلم، کھاریاں اور سیالکوٹ شامل ہیں۔ جب کہ سندھ میں لاڑکانہ اور نواب شاہ میں پی آئی کے لیے کوئی بزنیس نہیں۔ جب کہ کراچی اور سکھر سے بدستور فلائٹس جاری رہیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان