پی آئی اے حادثے کے آخری لمحات مسافر ظفر مسعود کی زبانی

’ ایک لیڈی ڈاکٹر آئیں اور انہوں نے میری والدہ کا نمبر ملایا تو وہ بند جا رہا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے والد کا نمبر ملا دیں۔ میں نے انہیں نمبر بتایا تو انہوں نے وہ ملا دیا اور میں نے پورے اعتماد سے اپنے والد سے بات کی۔‘

(عرب نیوز)

جو آخری بات ظفر مسعود کو بے ہوش ہونے سے پہلے یاد ہے وہ یہ تھی کہ جب ان کا طیارہ زمین کی جانب جھکنے لگا تو انہوں نے اپنے اندر سے ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔

ظفر مسعود بینک آف پنجاب کے صدر ہیں اور اس طیارہ حادثے میں بچ جانے والے دو افراد میں سے ایک ہیں جس میں 99 مسافر اور عملے کے آٹھ ارکان سوار تھے جو رواں سال 22 مئی کو کراچی کے ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

انہوں نے کراچی آنے کے لیے اپنی پرواز سیرین ائیر سے بک کروائی تھی جو انہیں دیر سے سونے اور جلدی نہ اٹھ سکنے کے اندیشے کے باعث چھوڑنی پڑی۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب وہ لاہور ائیر پورٹ پہنچے تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہر کسی کو اپنی منزل پر پہنچنے کی ضرورت سے زیادہ جلدی تھی۔'

پی کی 803 کے زیادہ تر مسافر عید الفطر پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منانے جا رہے تھے۔ اس سے قبل دو مہینے تک نافذ رہنے والے لاک ڈاون کے دوران وہ سفر نہیں کر سکے تھے۔

ظفر مسعود کے مطابق 'پرواز معمول کے مطابق تھی لیکن جب اس نے کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا چاہا تو پہلی بار ایک دھکا لگا کیونکہ لینڈنگ کے دوران طیارہ زمین سے ٹکرا کر دوبارہ اٹھا تھا۔'

انہیں یاد ہے کہ کیسے طیارہ دو بار زمین سے ٹکرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ سکتے طیارہ دوبارہ فضا میں بلند ہو گیا جو خلاف معمول تھا اور میری زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ میں پہلی سیٹ پر ہونے کی وجہ سے ہر چیز سے لا علم تھا لیکن میں ائیر ہوسٹسز کو پریشان ہوتے دیکھ سکتا تھا، انہوں نے آیات قرانی کا ورد شروع کر دیا تھا۔ کچھ لمحوں بعد کاک پٹ کا دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ جہاز کا رخ نیچے کی جانب ہو چکا ہے۔ میں نے خود سے پوچھا کیا جہاز گرنے والا ہے اور میں مرنے والا ہوں۔ اتنے میں میرے اندر سے ایک آواز آئی کہ نہیں۔ یہ تمہارا وقت نہیں ہے۔ تم نہیں مرو گے۔ میں نے سوچا ایسے کیسے ہو سکتا کہ جہاز گر رہا ہے اور میں بچ جاؤں۔'

اسی دوران وہ بے ہوش ہو گئے۔

ہوش میں آنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ان کی نشست جہاز سے نکل کر ایک گھر میں جا گری تھی۔ زمین پر موجود لوگوں نے انہیں زندہ پانے کے بعد ان کی مدد کی۔

ظفر مسعود کہتے ہیں 'جب مجھے ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تو میرا پہلا سوال تھا کہ باقی مسافروں کا کیا ہوا؟' تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ نہیں جانتے۔ انہیں بتایا گیا کہ بچ جانے والوں میں سے وہ پہلے شخص ہیں۔

ان کا کہنا ہے ایک لیڈی ڈاکٹر آئیں اور انہوں نے میری والدہ کا نمبر ملایا تو وہ بند جا رہا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے والد کا نمبر ملا دیں۔ میں نے انہیں نمبر بتایا تو انہوں نے وہ ملا دیا اور میں نے پورے اعتماد سے اپنے والد سے بات کی۔

بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ ان کے طیارے کے حادثے کا سن کر بے ہوش ہو گئیں تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حادثے میں ظفر مسعود کا ایک بازو ٹوٹا جب کہ کچھ اور چوٹیں بھی آئیں۔ بچ جانے والے دوسرے شخص محمد زبیر جو کہ ایک مکینکل انجنئیر ہیں ان کے ہاتھ اور پاؤں اس حادثے میں جل گئے۔

حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی نعشوں کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

جب ظفر مسعود سے پوچھا گیا کہ اس حادثے نے ان کی زندگی کو کتنا بدل دیا ہے تو ان کا کہنا تھا میرے پاس اس بات کا جواب نہیں کہ خدا نے مجھے کیوں زندہ رکھا ہے۔ میں بس پہلے سے بھی زیادہ درست کام کرنے کی لگن رکھتا ہوں۔

حادثے سے کئی ماہ بعد ستمبر میں وہ کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو یہ پرواز بھی پی آئی اے کی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے بہت سوچ سمجھ کے فیصلہ کیا گو کہ میرے اہل خانہ اور دوست اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں فضائی سفر کروں یا اگر میں جہاز سے جاؤں بھی تو پی آئی سے نہ جاؤں۔'

وہ جس پرواز سے واپس آئے وہ اسی روٹ کی پرواز تھی جس کو حادثہ پیش آیا تھا۔

اس پرواز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'یہ معمول کے مطابق تھی۔ جب یہ پرواز لاہور پہنچی تو مجھے حادثے کے مناظر یاد آنے لگے۔ یہ کچھ لمحات کے لیے تھے لیکن باقی سب ٹھیک تھا۔ میں یہ کرنا چاہتا تھا تاکہ میرے ذہن پر سوار خوف کو ختم کر سکوں۔ میں چاہتا تھا کہ میری زندگی معمول کے مطابق ہو سکے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی