بلوچستان کے چند گوہر نایاب

یہ لکھتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ باوجود کوشش کے میں چند نگینے ہی تلاش کر پائی ہوں جنہوں نے بغیر کسی سرکاری امداد کے یا پھر کسی این جی او کے بینر کے بغیر اپنی مٹی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

بلوچستان کے چار خدمت گزار (تانیہ بلوچ)

بلوچستان کے ساحل کی سنہری مچھلیاں ہوں یا اس کی سنگلاخ چٹانوں سے نکلنے والے قیمتی پتھر، وہاں کی خانہ بدوش طرز زندگی ہو یا اپنے لوگوں کے لیے خدمات انجام دینے والے گوہر نایاب یہ سب صوبے میں بدامنی اور ہیجان کی فضا میں ایک مثبت سوچ کا احساس دلاتے ہیں۔

ترقی کسے اچھی نہیں لگتی لیکن اگر اپنی ترقی اور اپنی صلاحیتوں سے اپنے خطے میں رہنے والے جہاں سے آپ کی بنیادیں جڑی ہوئی ہوں اور آپ ایک مقام پر پہنچ کر اپنے قیمتی وقت یا پھر اپنی صلاحیتوں اور قابلیت میں اپنے علاقے کے رہنے والوں کو اس کا حصہ دار بنائیں تو کیا ہی کہنے۔

صوبے میں یوں تو فلاحی تنظیموں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ بلوچستان سوشل اینڈ ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق صرف بلوچستان میں چار ہزار سے زائد رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں چند سرکاری اور غیر سرکاری فنڈز کے زور پر چل رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں یہ این جی اوز بلوچستان کے پسماندہ اور شورش زدہ علاقوں میں کسی بھی قسم کی خاطر خواہ کامیابی (ماسوائے سیمینار کے انعقاد کے) حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ باوجود کوشش کے میں چند نگینے ہی تلاش کر پائی ہوں جنہوں نے بغیر کسی سرکاری امداد کے یا پھر کسی این جی او کے بینر کے بغیر اپنی مٹی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

1۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

اگر آپ کا جانا کراچی میں موجود آئی ایس ایم ہسپتال ہو تو کچھ دیر کے لیے کلینک کے باہر کا منظر آپ کو ایک مسیحا کا درست مطلب سمجھا دے گا۔ بلوچستان سے آئے ہوئے مریضوں کی ایک طویل قطار موجود ہوتی ہے اور وہاں سے باہر نکلنے والے مستحق مریض رقم کی ادائیگی کی بجائے یہ کہہ کر جا رہے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو ہمارا سلام دینا۔

تربت سے تعلق رکھنے والے ایک چرواہے کے بیٹے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے اردگرد تعلیم یافتہ ماحول نہیں دیکھا۔ لیکن دل میں ٹھان لی کہ انہیں کچھ کرنا ہے۔ یہی لگن اور سوچ ڈاکٹر نسیم بلوچ کو پہلے بولان میڈیکل کوئٹہ اور پھر جناح ہسپتال کراچی سے FCPS تک کامیاب کروا سکی۔

تربت شاہ رک کے ٹاٹ کے سکول سے پڑھے اس بچے نے پڑھائی کے میدان میں جہاں ہر مقام پر ٹاپ کیا اور پھر بیرون ملک جا کر سپیشلائزیشن (جنرل سرجری) کو مزید جلا بخشی۔ ہر ہفتے بلاناغہ چاہے آندھی ہو یا طوفان، فلائٹیں کھلی ہوں یا بند اپنی جنم بھومی تربت جا کر ان مریضوں کی سرجریز اور علاج معالجہ کرتے ہیں۔

پچھلے سال دشت (بلوچستان) سے آئی 13 سالہ بچی جو کہ گلے کے کینسر میں مبتلا تھی اور اس کی رسولی کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا کسی غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے اسے کراچی کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک مشکل آپریشن تھا جو کہ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بغیر کسی معاوضے کے طور پر کیا۔

کہتے ہیں کہ ’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔‘ یہ مصرعہ ایسے مسیحاﺅں کے لیے مکمل طور پر واجب ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نسیم بلو چ ان تمام ڈاکٹرز کے لیے ایک زندہ مثال ہیں جو بھاری بھر کم تنخواہ اور دیگر مراعات لینے کے باوجود اپنے شعبے اور اپنے علاقوں کا حق ادا نہیں کرتے۔

2۔ شاہ محمد مری

کہتے ہیں کہ کسی خطے کو جاننے کے لیے وہاں کے رہنے والوں کے ادب کو ضرور پڑھیں۔ میگزین کا بنڈل اٹھائے سیدھے سادے لباس میں ملبوس جناح روڈ پر ایک نفیس اور عام نظر آنے والے درحقیقت بلوچستان کے ایک بہت بڑے مترجم، کامریڈ، دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری ہیں۔ مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاہ محمد مری نے ابتدائی تعلیم سبی، میڈیکل کی بولان میڈیکل کوئٹہ اور پھر مزید تعلیم کی غرض سے لاہور کا رخ کیا۔ 

پیشے کے اعتبار سے ایک پیتھالوجسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست اور لٹریچر میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ سوشلسٹ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہو یا بی ایس او خوب جم کر اپنا موقف بیان کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد اب تک جو لکھنے لکھانے کے عشق میں مبتلا ہوئے تو آج تک اسی میں گرفتار ہیں۔

پروگریسو رائٹر نامی تنظیم ہو یا سنگت اکیڈمی شاہ محمد مری کا ٹارگٹ ہمیشہ نوجوان رہے۔ گو کہ مری صاحب خود کو ایک ادیب نہیں کہتے، انہوں نے مترجم کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ سنگت اکیڈمی 1997 میں بنائی اور اس اکیڈمی کے ذریعے بلوچستان کے نوجوانوں، ادیبوں اور رائٹرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔

زبان کی اس سے بڑھ کر کیا خدمت ہوسکتی ہے کہ اس اکیڈمی کے ذریعے اب تک 42 کتابوں کا بلوچی زبان میں ترجمہ کیا۔ ذرا سوچیے کوئٹہ کی سرد شامیں ہوں اور ہر چھٹی والے روز (پہلے جمعہ کو ہوا کرتی تھیں) ادب اور سیاست پر گپ شپ کرنے والوں کا مجمع جہاں مری صاحب جیسا سننے والا موجود ہو۔ وہ بولتے کم اور سنتے زیادہ ہیں۔

بلوچستان جہاں بدامنی نے ایک طویل عرصے سے ڈیرہ ڈالا ہوا ہو وہاں ایسے پروگریسو رائٹر کی بلوچستان سنڈے پارٹی ایک نہایت ہی صحت مندانہ اقدام ہے۔ فکری اور عملی سوچ رکھنے والے افراد معاشرے کی ترقی میں شعور و آگاہی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

حالیہ سندھ لٹریچر فیسٹیول میں ہم نے شاہ صاحب کے اندر چھپے ’مری‘ کو دریافت کیا جنہوں نے صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی بھرپور عکاسی کی۔ بلوچستان میں بہت کم ہی لکھاری خواتین کے حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ مری صاحب ان چند میں سے ایک ہیں جنہوں نے خواتین کی حقوق پر کئی بار قلم اٹھایا۔

3۔ رابعہ دستگیر (فیشن ڈیزائنر)

بلوچی ’دوچ‘ بلوچ ثقافت کا اہم ترین حصہ ہے اور یہی ثقافت جب کینیڈا کے شہر ’وینکوور‘ کے فیشن ویک میں نظر آئی تو (خاران) بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نوجوان رابعہ دستگیر کا نام سامنے آیا۔ ریمپ پر موجود ماڈلز بلوچی کشیدہ کاری جن میں دلفریب رنگوں اور جدی ڈیزائنرز کا امتزاج تھا زیب تن کیے ہوئے تھیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی رابعہ دستگیر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائنگ سے گریجویشن کرنے کے بعد مختلف لوپ برینڈز کے ساتھ کام کرچکی ہیں اور اب کینیڈا میں بھی پاکستانی ثقافت خاص طور پر کشیدہ کاری کو روشناس کرنے میں مصروف ہیں۔

رابعہ دستگیر کے مطابق انٹرنیشنل مارکیٹ میں بلوچی کشیدہ کاری کو ایک خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے اسی کشیدہ کاری کے ڈیزائنر کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جیکٹز اور دیگر ملبوسات کو متعارف کروایا۔ رابعہ چاہتی ہیں کہ خاران میں خواتین کو اسی ہنر کے قابل بنایا جائے۔ بلوچستان کی خواتین اس ہنر کے ذریعے اپنا روزگار حاصل کرسکتی ہیں اور ساتھ میں اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں مقبول بنانے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔

4۔ ظاہر حسین (ماہر تعلیم)

ہم نے اکثر لوگوں کو حکومتی ناانصافیوں اور عدم توجہی پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اگر یہ احتجاج اس بات پر ہو کہ ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والا اس بنیاد پر اپنے علاقے کو خیرباد کہہ دے کہ وہ وہاں کے بچے اور بچیوں کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ پڑھے لکھے مکران، پنجگور سے تعلق رکھنے والے ظاہر حسین جنہیں سر کا خطاب انگریز نے نہیں خود اپنے لوگوں نے دیا ہو, اعزاز کا باعث ہے۔ امریکہ اور روس سے سکالرشپ ایم اے انگریزی زبان میں حاصل کرنے کے بعد ایک کامیاب پروفیشنل لائف تو کافی لوگوں نے حاصل کی ہوگی لیکن شاید ہی ان میں سے چند لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے واپس اپنے علاقوں میں آکر نوجوانوں کو (CSS)سے لے کر ڈاکٹرز بننے تک کے عمل میں حائل اہم ترین رکاوٹ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔

1993 میں پنجگور میں اپنا لینگویج سینٹر کھولنے کے بعد شدید مشکلات کے باوجود کوئٹہ اور حب میں بھی اس سلسلے کو جاری و ساری رکھنے والے ظاہر حسین آج پھر اسی جوش و جذبے کے ساتھ اپنے آبائی علاقے میں پھر سے اس تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔ ان کی علمی خدمات بلوچستان کے ہر مکتبہ فکر کے لیے حاضر ہیں۔

شاید خاموشی سے اپنے لوگوں کی خدمت کرنے والے اور بھی ہوں جن کا ذکر یہاں نہیں لیکن کوشش ہے کہ جو گوہر نایاب اپنے شعبے میں ترقی کے ساتھ اپنی زمین کے ساتھ خدمت کا تعلق جوڑے رکھا ان کا یاد ضرور کیا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت وقت کچھ ایسے اقدامات کرے کہ اس سرزمین سے اس طرح کے مزید گوہر جنم لے سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ