پاکستان اور بھارت کی بات چیت میں ’عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات‘

عالمی طاقتیں یو اے ای کے ذریعے قیام امن کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے اندورنی حالات بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے متقاضی ہیں: تجزیہ نگار۔

2019 کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار رہے ہیں (اے ایف پی)

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) دو حریف ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس کی تصدیق امریکہ میں اماراتی سفیر یوسف ال اوطیبہ نے ایک ورچوئل کانفرنس میں بھی کی۔ 

اس سے قبل برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی ذرائع کے حوالے سے اس سال جنوری میں دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں کی دبئی میں ملاقات کا انکشاف کیا تھا۔

دلی کے فوراً بعد اسلام آباد کا دورہ کرنے والے روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔ 

2019 کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار رہے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ایٹمی استعداد رکھنے والے پڑوسی کیوں یکایک مذاکرات کے لیے رضامند ہوگئے؟ اور متحدہ عرب امارات کی اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکراتی میز پر لانے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ 

بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں عالمی طاقتیں متحدہ عرب امارات کے ذریعے قیام امن کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے اندورنی حالات بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے متقاضی ہیں۔

بہتر حالات مجبوری ہیں؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات 2019 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوج پر خودکش حملے اور بھارتی طیاروں کی پاکستانی علاقوں میں مداخلت کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے پانچ اگست، 2019 کو کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے اپنے ہمسائے ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی۔ 

تاہم روئٹرز کے مطابق دونوں ملکوں کی حکومتوں نے گذشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کے خیال میں دونوں ملکوں کے اندرونی سیاسی، معاشی اور اقتصادی حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمسائے کے ساتھ شورش کو ختم کیا جائے۔

طلعت مسعود کے مطابق: ’بھارت اور پاکستان دوسرے مسائل کے علاوہ گذشتہ ایک سال سے ساری دنیا کی طرح کووڈ 19 کے جھمیلے میں الجھے ہوئے ہیں، جو پاکستان کی نسبت بھارت میں سنگین شکل میں موجود ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی میں یہ احساس یقیناً موجود ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کبھی کبھار ہونے والی فائرنگ سویلین آبادی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کسی بھی وقت معاملات کے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ بن سکتی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد سے منسلک محمد علی بیگ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پہلے حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور اب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کی وجہ سے سیاسی سٹیج پر صورت حال کوئی زیادہ موافق نہیں تھی۔

جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں دونوں ہمسایوں کے رہنماؤں نے ضروری جانا ہوگا کہ تعلقات کو بہتر کیا جائے اور اسی لیے بیک چینل ڈپلومیسی شروع ہوئی۔

عالمی طاقتوں کی دلچسپی

تجزیہ کاروں کے خیال میں دنیا کی بڑی طاقتیں خصوصاً امریکہ، روس اور چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں، جس کی بڑی وجوہات میں سے ایک دونوں ہمسایوں کا ایٹمی طاقتیں ہونا ہے۔

محمد علی بیگ کہتے ہیں ’یہ روس اور چین ہی ہیں، جنہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد فراہم کی کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے مفادات جنوبی ایشیا سے منسلک ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ سی پیک منصوبے کو خراب ہونے سے بچانا چاہتا ہے جبکہ ماسکو گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اس مرتبہ جنگ کی بجائے دوستی کی راہ اختیار کرنے کا پلان بنا رہا ہے۔

جنوبی ایشیا کی طرف روسی پالیسی سے متعلق اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کی اس خطے کے لیے پالیسی ماضی سے بہت مختلف ہے۔ 

جنرل (ر) طلعت مسعود کے مطابق امریکہ بھی یقیناً جنوبی ایشیا میں امن دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ واشنگٹن کا بڑا ہدف چین ہے جسے وہ نئی دہلی کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔

اگر بھارت پاکستان کے ساتھ ملوث رہے گا تو چین پر توجہ نہیں دے سکے گا جبکہ امریکہ کی دلچسپی ہے کہ دہلی پوری طرح بیجنگ کو مصروف رکھے، جس سے امریکی مفادات کی تکمیل ہو سکتی ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے سرحدی کشیدگی بھی شاید دہلی کو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوجی انخلا کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور عدم اعتماد جنگ سے پہلے ہی تباہ حال ملک کو مزید غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔

حکومتی مدت

ہمسایہ ملکوں کے درمیان اس وقت تعلقات میں بہتری کے لیے کیوں چنا گیا؟ اس بارے میں بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شاید عمران خان اور نریندر مودی دونوں تقریباً اپنی حکومتوں کی مدت کے وسط میں ہیں۔

یہ دونوں کے لیے کوئی بڑا فیصلہ لینے کا آخری موقع ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے بعد دونوں اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گے اور ایسے وقت میں ان کے لیے کسی پیش رفت کو عوام میں مقبول بنانا انتہائی مشکل ہوگا۔ 

عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی رہنما انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات دے کر اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

ہر سیاسی جماعت دوسرے ملک کو دشمن کے طور پر پیش کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نریندر مودی خصوصاً اس میں پیش پیش دکھائی دئیے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی دلچسپی

پاکستان اور بھارت نے بیک چینل ڈپلومیسی میں آخر متحدہ عرب امارات کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ یا خود متحدہ عرب امارات دونوں ہمسایوں کو قریب لانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور کیوں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ امریکہ کے کہنے پر ہی متحدہ عرب امارات ایسا کر رہا ہو گا۔ ’میرا نہیں خیال کہ اماراتی حکومت اپنے تئیں ایسا کوئی قدم اٹھا سکتی ہے۔‘

محمد علی بیگ نے طلعت مسعود سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’کسی بھی عرب ملک کی ترقی یافتہ ملکوں کے سامنے ساکھ بہت اچھی نہیں، اس لیے متحدہ عرب امارات اپنے طور پر تو ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتا۔‘

ان کے خیال میں بین الاقوامی طاقتوں نے ہی انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہوگا، جن میں امریکہ اور روس شامل ہوسکتے ہیں۔

طلعت مسعود نے مزید کہا کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد سے متحدہ عرب امارات کی اسلامی دنیا میں کافی مخالفت پائی جاتی ہے اور شاید ان کے خیال میں پاکستان بھارت تعلقات میں کوئی کردار ادا کرکے وہ ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں کے دل جیت سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی ایک وجہ اس عرب ملک میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اور بھارتی شہریوں کی موجودگی بھی ہو سکتی ہے۔

’پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی اور بھارتی ورکرز کے درمیان تناؤ کی وجہ بن سکتی ہے جو کسی صورت بھی اماراتی حکومت کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا