پاکستان اور بھارت کے درمیان امن سے یو اے ای کو کیا فائدہ؟

دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز کے لیے متحدہ عرب امارات کے کردار سے اس کی خارجہ پالیسی کے تین خدشات کی عکاسی ہوتی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید النہیان (فائل تصویر:اے ایف پی)

پاکستان اور بھارت نے جب مہینوں سے جاری کشیدگی کے بعد گذشتہ ماہ کشمیر خطے میں اپنی متنازع سرحد (ایل او سی) پر جنگ بندی کا اعلان کیا تو جس ملک نے ان دو ایٹمی حریفوں کے مابین اس امن معاہدے پر پہنچنے میں مدد فراہم کی اس پر بہت سوں کو حیرانی ہوئی ہے۔

یہ ملک کوئی اور نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کا مغربی ہمسایہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) تھا جو عسکری قوت سے سفارت کاری کی طرف بڑھتے ہوئے جیو پولیٹیکل اہمیت کے حامل خطے میں ایک ’سافٹ پاور‘ کے طور پر ابھر رہا ہے۔

علاقائی ماہرین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے پاس بنیادی طور پر مذاکرات کا آغاز کرانے کی تین وجوہات ہیں، جن میں علاقائی سیاست میں خود کو ایک کلیدی کھلاڑی کی حیثیت سے پیش کرنا، قطر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا اور امریکہ میں نئی انتظامیہ کی خوشنودی حاصل کرنا شامل ہے۔

متحدہ عرب امارات میں سابق بھارتی سفیر تلمیز احمد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’متحدہ عرب امارات کو سب سے بڑا خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔ اخوان المسلمین کے چیلنج سے نمٹنے اور قطر کے اثر کو کم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات خطے میں ایک متبادل کردار پیش کر رہا ہے ۔‘

اخوان المسلمین طویل عرصے سے متحدہ عرب امارات اور قطر کے مابین تنازعے کی سب سے بڑی وجہ رہا ہے۔ اگرچہ دوحہ اس بین الاقوامی اسلام پسند تحریک کی حمایت کرتا ہے لیکن ابوظہبی 2011 سے اس کی مخالفت کررہا ہے۔

متحدہ عرب امارات سمیت متعدد خلیجی ممالک کی جانب سے 2017 میں قطر کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات کے خاتمے کے پیچھے ایران کے ساتھ دوحہ کی قربت کے ساتھ ساتھ ایک وجہ اخوان المسلمین کی حمایت بھی تھی۔

تین سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے تنازع کو ختم کرنے پر رضامند ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات اور قطر کے عہدے داروں نے رواں سال کے آغاز میں کویت میں پہلی بار ملاقات کی تھی۔

امریکہ اور کویت کی ثالثی کے بعد دونوں فریقین کے مابین تجارت اور سفری رابطے بھی بحال ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب قطر کے بھارت اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات یو اے ای کے لیے ایک اور مسئلہ ہے جس پر ابوظہبی میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

متحدہ عرب امارات خود بھی جنوبی ایشیا کے ان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

میکس ویل سکول آف سٹیزن شپ اینڈ پبلک افیئرز میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسامہ خلیل کا ماننا کہ متحدہ عرب امارات جنوبی ایشیا میں قطر کے کردار کو محدود کرنے کی امید کر رہا ہے۔

ان کے بقول: ’قطر بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تعلقات میں وسعت دے رہا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں سعودی عرب اور عرب امارات نے قطر کی ناکہ بندی ختم کی ہے تاہم ان کے درمیان تناؤ اب بھی برقرار ہے۔‘

اسامہ خلیل نے کہا کہ قطر اس وقت بھارت کو مائع قدرتی گیس فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے اور وہ پاکستان کو بھی بڑی مقدار میں مائع قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے۔

گذشتہ دسمبر میں اپنے دوحہ کے دورے کے دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے قطر کی کاروباری شخصیات سے بات چیت کے دوران بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقع پر روشنی ڈالی۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ قطر میں سات لاکھ سے زیادہ بھارتی شہری مقیم ہیں اور 2019 اور 2020 میں دو طرفہ تجارت کی مالیت 10 ارب ڈالرز سے زیادہ رہی۔

دریں اثنا پاکستان اور قطر نے گذشتہ ماہ ایل این جی کی فراہمی کے لیے 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

پاکستان کے معتبر انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے معاون نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی فوجی قیادت کے قطر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جو افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے مابین بات چیت میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

’منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالیسس‘ سے وابستہ تحقیقی تجزیہ نگار ناگپوشپا دیویندر نے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے معاشی اور سفارتی مدار میں رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

’ایسے میں جب بھارت کے ساتھ اس کی سٹریٹجک شراکت داری نمایاں طور پر مضبوط ہوئی ہے، متحدہ عرب امارات کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشمیر پر بھارت مخالف بیانات کے باعث کشیدہ ہوئے ہیں۔‘

2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات نچلی ترین سطح پر آگئے تھے۔

متحدہ عرب امارات کے بھارت میں سفیر نے اس وقت کہا تھا کہ یہ فیصلہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اور ’ہمیں توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے معاشرتی انصاف اور سکیورٹی میں بہتری آئے گی اور (کشمیری) عوام اور مقامی حکومت میں اعتماد بڑھے گا۔‘

مودی حکومت کے اس اقدام کے بعد متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سفارت کاروں نے ’اتحاد کے علامتی اظہار‘ کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

دیویندر نے نشاندہی کی کہ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے تو ایران اور ترکی کی طرف اسلام آباد کے جھکاؤ کو روکنے کے لیے وہ پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات علاقائی امور میں کلیدی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے اور بھارت پاکستان مذاکرات کے درمیان ثالثی اسی جانب ایک قدم ہے۔

اسامہ خلیل کے بقول: ’ابوظہبی نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں وسیع تر سیاسی، فوجی اور معاشی کردار ادا کیا ہے۔ وہ اب اپنی دولت اور تجارتی تعلقات کو سیاسی اور سفارتی طاقت میں بدلنا چاہتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل کے ساتھ حالیہ معمول کے تعلقات قائم کرنے کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں مدد اور کشمیر کے طویل مسٔلے کا حل متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید النہیان کے لیے ایک اہم کارنامہ ہوگا۔‘

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے گذشتہ سال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معاونت میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔

اس معاہدے کو بڑے پیمانے پر ٹرمپ کی سفارتی فتح کے طور پر دیکھا گیا اور ابو ظہبی کے لیے ایک اہم فائدہ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا تھا۔

احمد نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے جنوبی ایشیا میں امریکی سٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت اور پاکستان کے مابین ہونے والی بات چیت میں مدد فراہم کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ بھارت پاکستان تناؤ اتنا سنگین نہ ہو کہ وہ ممکنہ جنگ کا باعث بن جائے۔

ان کے بقول: ’امریکی بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کو درست رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اسلام آباد کو بیجنگ کی گرفت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں تعمیری کردار ادا کرے تاکہ امریکہ کا وہاں سے انخلا آسان بنایا جا سکے۔‘

کشیدگی کو ختم کرنا اور جنگ بندی بھارت اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ جیسا کہ دیویندر کا ماننا ہے کہ ’چین کے تناظر میں بھارت کے لیے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات اہم ہیں۔‘

لداخ میں دونوں ممالک کی فوجوں کے تصادم کے بعد بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور دونوں ممالک ایک سال سے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

اس خونی تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ چین نے گذشتہ ماہ پہلی بار اعتراف کیا کہ اس کے بھی چار اہلکار اس جھڑپ میں مارے گئے۔

بات چیت کے متعدد ادوار کے باوجود دونوں ممالک ابھی تک کشیدگی کے مکمل خاتمے اور تمام متنازع معاملات پر قابل قبول حل تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔

دیویندر نے کہا: ’بھارت کو تشویش ہے کہ بیجنگ اسلام آباد کو خطے میں نئی دہلی کے مفادات کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت اس وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا وہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بڑے مسٔلے یا چین پر توجہ دی جاسکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پاکستان نے ممکنہ طور پر امن مذاکرات میں حصہ لینے کی ضرورت کو محسوس کیا ہے کیونکہ وہ داخلی طور پر معاشی بحران سے نمٹ رہا ہے۔

بھارت کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سوجاتا ایشوریہ نے کہا: ’کشیدگی میں کمی سے پاکستانی حکومت معیشت کی خوف ناک صورت حال پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بین الاقوامی نگران ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بھی نکلنا چاہتا ہے۔

ایشوریہ نے کہا: ’اس سے پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی امداد متاثر ہوتی ہے اور اس فہرست سے باہر نکلنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیح ہے۔‘

ایف اے ٹی ایف نے گذشتہ ماہ کارکردگی کے اگلے جائزے تک پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکیس پلیئر نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے اس سمت نمایاں پیش رفت کی ہے لیکن اسے ابھی بھی 2018 میں دی گئی 27 نکاتی فہرست میں سے تین نکات پر مکمل عمل کرنا باقی ہے۔

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوانے نے حال ہی میں کہا تھا کہ افغانستان کی سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال، ایف اے ٹی ایف  اور داخلی مسائل ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کے باعث پاکستان جنگ بندی کے لیے راضی ہوا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا