انڈس واٹر کمیشن اجلاس کا بھارت سے گرم جوشی سے تعلق نہیں

واٹر کمیشن کے حالیہ اجلاس کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سے جوڑا جا رہا ہے حالانکہ یہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہوا جو دونوں فریقوں کو سال میں ایک مرتبہ اس کا پابند کرتا ہے۔

سکردو کے قریب دریائے سندھ۔ پاکستان کے اکثر دوسرے دریاؤں کی طرح دریائے سندھ بھی بھارت کے زیرِ انتظام علاقوں سے آتا ہے (اے ایف پی)

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں 23 اور 24 مارچ کو بھارت اور پاکستان کے مستقل واٹر کمشنروں کے مابین معمول کا اجلاس ہوا۔ یہ میٹنگ تقریباً اڑھائی سال بعد منعقد ہوئی ہے۔

دنوں ملکوں کے درمیان پرمننٹ انڈس کمیشن (پی آئی سی) کے سالانہ دو روزہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے دوران دو بھارتی منصوبوں پکل دل اور لوئر کلنئی کے  ڈائزائنز پر بات ہوئی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ یہ دونوں منصوبے 1960 میں ہونے والے معاہدے کے مطابق ہیں جبکہ پاکستان نے بھارت سے دیگر ہائیڈرو پاور منصوبوں کے، جن کو تعمیر کرنے کا منصبوبہ بنایا گیا ہے، ڈیزائن اور معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کا آخری اجلاس اگست 2018 میں لاہور میں ہوا تھا۔

اجلاس کیا ہونا تھا کہ کچھ تجزیہ کاروں نے اسے بھارت پاکستان تعلقات سے جوڑ دیا حالانکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی خوش گواری یا ناخوش گواری سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔

سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ جائزے کے لیے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ایسا اجلاس ضرور منعقد کریں۔

اس سے پہلے یہ اجلاس 2020 میں ہونا تھا جو کرونا کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا۔ 2019 میں پاکستانی ماہرین کی ٹیم نے جموں و کشمیر میں ان منصوبوں کا جائزہ بھی لیا جن پر انہیں خدشات تھے۔ 

سندھ طاس معاہدہ ہے کیا؟

سندھ طاس معاہدے کو ہندی میں ’سندھو جل سمجھوتہ‘ اور انگریزی میں ’انڈس واٹر ٹریٹی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے کامیاب ترین معاہدوں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ معاہدہ 19 ستمبر، 1960 کو عالمی بینک کی ثالثی میں پاکستان کے اقتصادی حب کراچی میں معرض وجود میں آیا۔

اس سمجھوتے کی نگرانی ورلڈ بینک کرتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔

یوں مختصر لفظوں میں کہا جائے تو انڈس واٹر ٹریٹی سندھ ریور سسٹم کی دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کی بانٹ کا نام ہے۔

انڈس ریور سسٹم میں چھ دریا ہیں۔ 1960 کے معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاز اور راوی) بھارت کے حصے میں آئے۔ بھارت ان تین دریاؤں کا پانی جو 3.3 کروڑ ایکڑ فیٹ بنتا ہے، بغیر کسی جھجک کے استعمال کر سکتا ہے۔

جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، چناب اور جہلم) جن میں لگ بھگ ساڑھے 13 کروڑ ایکڑ فیٹ پانی ہے پاکستان کو ملے۔

بھارت مغرب کی جانب بہنے والے ان تین دریاؤں کا 20 فی صد پانی استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ان دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کر سکتا ہے اور نہ ہی آبپاشی کے لیے استعمال۔

1960 کے بعد تین پاک بھارت جنگیں ہو چکی ہیں اور کشیدگی کا ماحول تو زیادہ تر رہتا ہی ہے۔ اس سب کے باوجود سندھ طاس معاہدے پر کبھی فرق نہیں پڑا۔

معاہدے کا آرٹیکل 09 تنازع کی صورت میں اس کے پرامن حل پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگر کسی بات پر کوئی تنازع ہو جاتا ہے تو اسے حل کرنے کے لیے دونوںملکوں کے کمشنروں کے پاس جاتا ہے۔

مزید کنفیوژن کی صورت پر نیوٹرل ٹیم کو بھیجا جاتا ہے جو معاملے کو دیکھتی ہے، پھر بھی فریقین یا ایک فریق راضی نہیں ہوتا تو اس کے لیے انٹرنیشنل آربیٹریشن کورٹ کا راستہ کھلا ہے۔ 

تنازعات، ثالثی

1970 میں بھارت نے جموں و کشمیر میں پن بجلی منصوبے بنانے شروع کیے۔ یہیں سے پاکستان کے تحفظات کا آغاز ہوا۔

نئی دہلی کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ یہ ڈیم ایسے ڈیزائن کیے گئے ہیں جو بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن پانی ذخیرہ نہیں ہوتا بلکہ دوبارہ دریاؤں میں چلا جاتا ہے۔ اس خاص ڈیزائن کو ’رن آف ریور‘ کہا جاتا ہے۔

سندھ کے تین مغربی دریا جو سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستانی دریا کہلاتے ہیں جموں و کشمیر سے ہو کر پاکستان جاتے ہیں۔

1984 میں بھارتی حکومت نے دریائے جہلم پر تلبل باراج سے ایک منصوبے کی منظوری دی لیکن پاکستان کے احتجاج پر نئی دہلی نے اس منصوبے کو یک طرفہ واپس لے لیا۔

جموں و کشمیر سے بہنے والے دریاؤں پر کافی پن بجلی ڈیمز بن چکے ہیں جن میں باگلیہار ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ، چھینانی، دول ہستی، سالال، اری، کشن گنگا اور ریتلے وغیرہ شامل ہیں۔

330 میگاواٹ کشن گنگا منصوبہ پہلا باضابطہ سٹوریج ڈیم ہے۔ یہ ڈیم کشن گنگا ندی، جس کو پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے، پر 2007 میں بننا شروع ہوا اور2018 میں مکمل ہوا۔

باہمی طور پر بات چیت سے معاملہ نہ سلجھنے کے بعد پاکستان 2010 میں اس معاملے کو بین الاقوامی ثالثی عدالت ہیگ لے کر گیا، جس نے 2011 میں بھارت کو منصوبے پر کام کرنے سے روک دیا۔

2013 میں ثالثی عدالت نے بھارت کو اس ڈیم پر کام کرنے کی مشروط اجازت دے دی۔ ریتلے ڈیم بھی متنازع رہا۔ 2018 میں ثالثی عدالت سے ریلیف کے بعد جنوری 2021 میں مودی حکومت نے اس منصوبے کی حتمی منظوری دے دی۔

ریتلے پروجیکٹ 850 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق حالیہ اجلاس میں مہر علی شاہ کی سربراہی میں سات رکنی پاکستانی وفد نے پکل دول اور لور کالنائی پر اپنے اعتراضات رکھے۔ بھارتی ٹیم کی سربراہی پردیپ کمار سکسینا کر رہے تھے۔

’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘

2016  میں اری اٹیک کے بعد سندھ طاس معاہدہ کافی سرخیوں میں رہا۔ اس سے پہلے ایسی باتیں کبھی نہیں ہوئیں کہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

اڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘

حالیہ اجلسا بھلے ہی دونوں ممالک کے درمیان جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد پہلی بیٹھک ہے لیکن اس کو ہرگز سیاسی بیٹھک نہیں کہا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1960 سے آج تک ایسی 115 بیٹھکیں ہو چکی ہیں جو دونوں کے درمیان سیاسی کشیدگیوں سے ماورا تھیں۔ 1947 سے آج تک بہت سارے معاہدے اور اجلاس بھارت۔ پاک سیاسی کشیدگی کی نذر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

سارک اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کبھی بھی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا، یہی اس کی انفرادیت ہے۔ 

 دوسری طرف بھارت اور پاکستان پچھلے چند ہفتوں ایک دوسرے سے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے مثبت اشارے دے رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے دونوں افواج کے درمیان ہاٹ لائن کے ذریعے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری روکنے کا اعادہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ بھی معنی خیز بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔

رواں ماہ کی 30 تاریخ کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی نویں منسٹریل کانفرنس میں شاہ محمود قریشی اور جے شنکر کی ملاقات بھی متوقع ہے۔ یہ کانفرنس تاجکستان میں ہونے جا رہی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا