قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بدھ کو چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ پی ٹی اے صارفین سے موبائل فونز پر کوئی ٹیکس وصول نہیں کر رہا ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ الرحمن نے کہا کہ ’ہم خود بھی چاہتے ہیں کہ فونز پر ٹیکسز کم ہوں اور اس کے لیے کوئی طریقہ کار واضح کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ پی ٹی اے کو گالیاں دیتے ہیں لیکن میں یہ واضح کر دوں کہ یہ ٹیکس وصول کرنا ایف بی آر کا کام ہے، پی ٹی اے کا نہیں۔ اس کے اکاؤنٹ میں ایک روپیہ نہیں آتا۔‘
پاکستان میں بیرون ملک سے لائے جانے والے موبائل فونز پر حکومت کی جانب سے ٹیکس لگایا گیا ہے جسے صارفین کی جانب سے جمع نہ کروانے کی صورت میں ان کے موبائل فونز کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔
کمیٹی اجلاس میں کیا ہوا؟
قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کے اجلاس میں درآمد شدہ موبائل فونز پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے ٹیکس عائد کیے جانے سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔
چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر کے زیر صدارت کمیٹی اجلاس میں خصوصی طور پر مدعو کیے گئے مہمان رکن قومی اسمبلی علی قاسم گیلانی نے کہا کہ ’درآمد شدہ موبائل فونز پر 60 فیصد ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ موبائل فون چوری ہوتے ہیں جب کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ایک موبائل فون پاکستان لانے تک کی اجازت نہیں ہے۔‘
علی قاسم گیلانی نے درآمد شدہ موبائل فون پر عائد ’بے تحاشہ ٹیکسز‘ سے متعلق کہا کہ ’سمارٹ فون یا آئی فون جو اب ایک لگژری نہیں ضرورت بن گیا ہے، اس پر بہت زیادہ پی ٹی اے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جو بیشتر افراد کے قوت خرید سے باہر ہے۔‘
اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان نے امپورٹڈ موبائل فونز پر ٹیکسز سے متعلق کہا کہ ’ٹیکس کے نام پر پی ٹی اے کو بدنام کیا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس ایف بی آر وصول کر رہا ہے۔ پی ٹی اے کو موبائل فونز پر ایک روپے کا بھی ٹیکس وصول نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کردہ ٹیکس پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آئی فون کو شیڈول نو سے نکال دیں جس میں سولر پینل اور ائیر کنڈشنر بھی شامل ہیں، میری درخواست ہے کہ اسے شیڈول آٹھ میں ڈالا جائے۔ اگر درآمد شدہ فون پر سے ٹیکس کم کیا جائے تو شہریوں کی مشکلات میں کمی ہوگی۔‘
رکن قومی اسمبلی علی قاسم نے کہا: ’چھ سال پہلے لانچ کیے گئے آئی فون 12 پر 75 ہزار روپے دینا پڑتا ہے۔ دنیا میں اور کس ملک میں چھ سال پہلے درآمد کیے گئے موبائل فون پر شاید ہی اتنا ٹیکس دینا پڑتا ہو۔ میں ٹیکس ختم کرنے کا نہیں کہتا لیکن کم کرنے کا کہہ رہا ہوں۔‘
علی قاسم گیلانی کے مطابق پاکستانیوں کے پاسپورٹ پر فراڈ کے ذریعے موبائل فون پہلے ہی رجسٹر ہو چکے ہیں۔
ان کے بقول: ’ایک رکن قومی اسمبلی کے ایئرپورٹ پہنچنے پر اس کے پاسپورٹ کی تصویر بنا لی گئی جس پر جعلی طریقے سے موبائل فون رجسٹر کر لیا گیا۔‘
پی ٹی اے کا جواب
پی ٹی اے نے کمیٹی کو جمع کروائے گئے تحریری ایک جواب، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں کہا ہے کہ ’پی ٹی اے کا کام صرف آئی ایم ای آئیز (IMEIs) کی تکنیکی جانچ کرنا اور معلومات ایف بی آر کے ساتھ شیئر کرنا ہے جبکہ ٹیکس سے متعلق تمام امور مکمل طور پر ایف بی آر کے اختیار میں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی اے نے مزید لکھا ہے کہ جولائی 2023 میں ایف بی آر اور حکومت پاکستان کی منظوری کے ساتھ عارضی رجسٹریشن کی سہولت متعارف کرائی گئی، جس کے تحت سمندر پار پاکستانی اور بین الاقوامی مسافر ایک موبائل ڈیوائس کی آئی ایم ای آئی کو شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے تحت جاری شدہ سم کے ساتھ ہر دورے کے لیے 120 روز کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اس سہولت کے بعد پی ٹی اے کے مطابق اب تک چار لاکھ 53 ہزار اور 769 ڈیوائسز عارضی طور پر رجسٹر ہو چکی ہیں۔
پی ٹی اے کے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ مقامی نیٹ ورک پر پہلی مرتبہ آنے والے موبائل آلات 60 روز بغیر رجسٹریشن استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد صارفین یا تو مستقل رجسٹریشن کروا سکتے ہیں اور ایف بی آر ڈیوٹی یا ٹیکس ادا کر سکتے ہیں یا عارضی رجسٹریشن کے تحت ایک ڈیوائس کو ہر دورے کے لیے 120 روز کے لیے بغیر ڈیوٹی یا ٹیکس ادا کیے مقامی سم کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔
پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا ہے کہ ادارہ ’کسٹمز ٹیکسیشن پالیسی میں تبدیلی، چھوٹ یا تشریح کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ پی ٹی اے کا کام صرف آئی ایم ای آئیز کی جانچ اور ڈیوائسز کو بلاک یا اَن بلاک کرنا ہے جبکہ ایف بی آر اور کسٹمز کے ذمہ ٹیکسیشن، کسٹمز ویلیوایشن، رعایتی پالیسی، ڈیوٹی وصولی، مسافروں کے آلات کے قواعد اور بیگیج الاؤنس ہیں۔‘
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگلے اجلاس میں پی ٹی اے اور ایف بی آر سے اس معاملے پر تفصیلی جواب لیں گے۔