ذاتی ڈیٹا کی خرید و فروخت میں ملوث 1300 سے زیادہ ویب سائٹس بلاک: پی ٹی اے

پی ٹی اے نے سبسکرائبر ڈیٹا کی مبینہ لیک سے متعلق کہا ہے کہ ’پی ٹی اے کسی قسم کا سبسکرائبر ڈیٹا اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ یہ صرف لائسنس یافتہ آپریٹرز کے پاس موجود ہوتا ہے۔‘

19 اکتوبر 2017 کی اس تصویر میں ایک پاکستانی شہری اپنے بیمار بیٹے کو اٹھائے ہوئے نرس کے پاس موجود ہے اور ڈاکٹر سے بچے کے علاج سے متعلق آن لائن گفتگو کر رہا ہے  (عامر قریشی / اے ایف پی) 

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا ہے کہ ادارے نے ذاتی ڈیٹا کی خرید و فروخت یا شیئرنگ میں ملوث 1372 ویب سائٹس و ایپلی کیشنز کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

 پی ٹی اے منگل کو ایک بیان سبسکرائبر ڈیٹا کے مبینہ لیک سے متعلق کہا ہے کہ ’پی ٹی اے کسی قسم کا سبسکرائبر ڈیٹا نہ تو اپنے پاس رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا انتظام کرتا ہے۔ سبسکرائبر ڈیٹا صرف لائسنس یافتہ آپریٹرز کے پاس موجود ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں شہریوں اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کا ذاتی ڈیٹا بڑے پیمانے پر آن لائن دستیاب ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔ اس ڈیٹا میں موبائل سم مالکان کا ایڈریس، کال ریکارڈز، قومی شناختی کارڈز کی نقول اور بیرون ملک سفر کی تفصیلات شامل ہیں۔

آن لائن فروخت کیے جانے والے اس ڈیٹا میں ملک کے وفاقی وزرا بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سرکاری افسران اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ترجمان بھی ان متاثرہ افراد میں شامل ہیں۔

پی ٹی اے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ابتدائی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ رپورٹ کیے گئے ڈیٹاسیٹس میں خاندانی معلومات، سفری ریکارڈز، گاڑیوں کی رجسٹریشنز اور قومی شناختی کارڈ کی نقول شامل ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ ڈیٹا مختلف بیرونی ذرائع سے جمع کیا گیا ہے، ٹیلی کام آپریٹرز سے نہیں۔

اتھارٹی کا کہنا تھا کہ لائسنس یافتہ سیکٹر میں کسی قسم کی خلاف ورزی کا سراغ نہیں ملا۔ ’ادارے نے جاری کریک ڈاؤن مہم کے تحت ایسے 1372 ویب سائٹس، ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا پیجز بلاک کر دیے ہیں جو ذاتی ڈیٹا کی خرید و فروخت یا شیئرنگ میں ملوث تھے۔‘

پاکستان میں ڈیٹا آن لائن فروخت ہونے سے متعلق معاملے پر ایمنسٹی ٹیکنالوجی نے ایک حالیہ رپورٹ میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایمنسٹی ٹیکنالوجی کی ترجمان ہاجرہ مریم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ملک میں شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاجرہ کا کہنا ہے کہ ’یہ لیکس کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ یہ عمل ایک مستقل پیٹرن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگر حکام شہریوں کا وسیع پیمانے پر ڈیٹا جمع کر رہے ہیں تو یہ لازمی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ جمع کیا گیا ڈیٹا صرف اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے جس کے لیے مانگا گیا ہے۔‘

ایمنسٹی ٹیک کی ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان میں موبائل سم کی لازمی رجسٹریشن بھی شہریوں کے ڈیٹا کو خطرے میں ڈالتی ہے کیونکہ یہ نادرا کے نظام کے ساتھ منسلک ہے۔ ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے باضابطہ طور پر قانون سازی یا ریگولیشن کی موجود بہت ضروری ہے۔‘

اس ضمن میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کی بانی فریحہ عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان میں شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق سنگین خدشات موجود ہیں۔

فریحہ نے کہا ’اکثر یہ اطلاعات ملتی رہتی ہیں کہ لوگوں کا پرسنل ڈیٹا پبلک ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ شناختی کارڈ نمبر یا فون نمبر ڈالنے پر مکمل تفصیلات تک رسائی مل جاتی ہے لیکن متعلقہ ادارے کوئی کارروائی نہیں کرتے۔‘

بولو بھی کی بانی نے کہا کہ مسئلہ صرف ہیکرز تک محدود نہیں بلکہ بعض اوقات اداروں کے اندر سے بھی معلومات لیک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

’یہ دیکھنا ہوگا کہ ادارے شہریوں کا ڈیٹا کس طرح جمع کر رہے ہیں۔‘

فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ ریاستی سطح پر ڈیٹا پروٹیکشن کو ترجیح دینے کے بجائے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ عوام کے ڈیٹا تک مزید رسائی حاصل کی جائے۔ ان کے مطابق جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی اور ماہرین کی رائے شامل نہیں کی جائے گی تب تک یہ چیلنجز برقرار رہیں گے اور شہریوں کا ڈیٹا غیر محفوظ رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ