انڈونیشیا اور سری لنکا میں حکام بدھ کو بھی سیلاب سے متاثرہ دور دراز اور کٹے ہوئے علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں تک پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آئے۔ چار ممالک کو متاثر کرنے والی اس قدرتی آفت میں اموات کی تعداد 1300 سے تجاوز کر چکی ہے۔
انڈونیشیا میں تباہ کن سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے بچ جانے والے افراد میں ریسکیو کارروائیوں اور امداد کی ترسیل کی رفتار پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
انڈونیشیا اکثر و بیشتر قدرتی آفات کا سامنا کرتا رہتا ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ سیلاب کے بعد لوگوں کی مدد اور بحالی ایک غیر معمولی چیلنج ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مون سون بارشوں نے دو طوفانی سلسلوں کے ساتھ مل کر گذشتہ ہفتے سری لنکا، انڈونیشیا کے صوبہ سماٹرا کے کچھ حصوں، جنوبی تھائی لینڈ اور شمالی ملائیشیا میں ریکارڈ توڑ بارشیں برسائیں۔
انڈونیشیا میں اموات کی تعداد بدھ کے روز 753 تک پہنچ گئی جبکہ لاپتہ افراد کی تعداد بھی بڑھ کر 650 ہو گئی۔
بڑھتے ہوئے اعداد و شمار اس معلومات کی عکاسی کرتے ہیں جو اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہے، کیونکہ کئی خطے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے باعث یا تو دنیا سے کٹے ہوئے ہیں یا پھر بجلی اور مواصلاتی نظام کے ناکام ہونے کے باعث تنہا رہ گئے ہیں یا دونوں صورتیں موجود ہیں۔
مرسی کورپس انڈونیشیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایڈ سکیڈس نے کہا: ’رسپانس دینا لاجسٹک اعتبار سے بہت چیلنجنگ ہے۔ نقصان کی حد اور متاثرہ علاقے کی وسعت واقعی بہت بڑی ہے۔‘
یہ تنظیم جکارتہ اور مقامی سطح پر صفائی کا سامان اور پانی بھیجنے کی امید رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک اور پانی کی قلت کی رپورٹیں پہلے ہی ’بہت تشویش ناک‘ ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ صورت حال ’مزید پریشان کن ہو جائے گی۔‘
’زلزلے کی طرح‘
پدان کے ایک انخلا مرکز میں موجود 52 سالہ رینارو وارووو نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ حکومت کے فوری ردعمل اور امداد کے سست پہنچنے پر ’مایوس‘ ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’بعض نے مدد ملنے سے پہلے ایک دن اور رات انتظار کیا، لہٰذا انہیں بچایا نہیں جا سکا۔‘
رینارو نے مزید کہا: ’میں مایوس ہوں، یہ بات دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ردعمل تیز نہیں تھا۔‘
دیگر کئی لوگوں کی طرح انہوں نے بھی سیلابی پانی اور لینڈ سلائیڈنگ کے اچانک آنے کو ایک غیر معمولی آفت قرار دیا۔
انہوں نے بتایا: ’یہ زلزلے کی طرح آیا۔۔۔میں نے سوچا، ٹھیک ہے، اگر مجھے مرنا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔‘
وہ خود تو سیلابی پانی سے نکلنے میں کامیاب رہے، لیکن ان کے پڑوسی ملبے میں زندہ دفن ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ صدمے کے باعث وہ کیمپ پہنچنے کے بعد کھانا بھی نہیں کھا سکے اور تب سے اب تک کھانے کی فراہمی بھی بے قاعدہ رہی ہے، تاہم منگل کو آنے والی سبزیاں ایک ’امید کی کرن‘ ثابت ہوئیں۔
قریب ہی موجود 37 سالہ حمیدہ تیلاومباؤنوا نے بتایا کہ کیسے وہ اپنی پورے کچن کو سیلابی پانی میں بہہتے دیکھتی رہیں۔
انہوں نے کہا: ’میرا دل۔۔۔یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ایسا سیلاب دیکھا۔‘
ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا، سوائے ان چند چیزوں کے جو وہ نکلتے وقت ساتھ لے آئیں۔
حمیدہ نے کہا: ’آگے کیا ہو گا، سوچنا بھی مشکل ہے۔ شاید جب تک ہم یہاں ہیں ٹھیک ہے، لیکن بعد میں۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو گا۔‘
جس موسمی نظام نے انڈونیشیا کو متاثر کیا، اسی کے تحت تھائی لینڈ میں بھی شدید بارشیں ہوئیں، جہاں کم از کم 176 افراد جان سے گئے جبکہ ملائیشیا میں دو اموات ہوئیں۔
سری لنکا ’سیاحوں کے لیے کھلا‘
اگرچہ ایشیا میں مون سون کے موسم کے دوران سیلاب عام ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہاں شدید بارشوں کے واقعات زیادہ عام ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ گرم ماحول زیادہ نمی محفوظ رکھتا ہے۔
اسی طرح گرم سمندر بھی طوفانی نظام کو زیادہ طاقتور بنا سکتے ہیں۔
ڈٹواہ نامی ایک الگ سائیکلون کے باعث گذشتہ ہفتے سری لنکا کے بیشتر حصوں میں بھی طوفانی بارشیں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئیں، جن کے نتیجے میں حکام کے مطابق کم از کم 465 افراد جان سے گئے اور سات ارب ڈالر تک نقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔
کمشنر جنرل آف ایسینشل سروسز پربت چندراکیرتی نے کہا: ’ہمارا ابتدائی اندازہ ہے کہ بحالی کے لیے ہمیں تقریباً چھ سے سات ارب ڈالر درکار ہوں گے۔‘
سری لنکا میں 366 افراد لاپتہ بھی ہیں، یہ ان علاقوں کے اعدادوشمار ہیں، جو بری طرح متاثر ہوئے اور اب تک بڑی حد تک ناقابلِ رسائی ہیں۔
چندراکیرتی نے کہا کہ موجودہ قوانین، جو کسی شخص کو چھ ماہ لاپتہ رہنے کے بعد ہی مردہ قرار دینے کی اجازت دیتے ہیں، ممکنہ طور پر مختصر کیے جا سکتے ہیں تاکہ موت کے سرٹیفکیٹس کے اجرا میں تیزی لائی جا سکے۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ خاندانوں کو اپنے گھروں کی صفائی کے لیے 25 ہزار روپے (83 ڈالر) دے گی اور جن کے گھر تباہ ہوئے انہیں آٹھ ہزار ڈالر تک دیے جائیں گے۔
سری لنکا میں مجموعی طور پر15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے دو لاکھ سے زائد ریاستی پناہ گاہوں میں ہیں۔
حکام کے مطابق قدرتی آفت کے باوجود سیاحت پر انحصار کرنے والے ملک نے منگل کو کولمبو بندرگاہ پر ایک لگژری کروز لائنر کا استقبال کیا۔
ملک کے ٹوررزم بورڈ کے مطابق یہ ’دنیا کو واضح پیغام دیتی ہے کہ سری لنکا محفوظ ہے، کھلا ہے اور ایک بار پھر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔‘