آرمینیائی ’نسل کشی‘ کے دوران کیا ہوا تھا اور آج بھی اس پر بحث کیوں؟

پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کو جھٹلایا نہیں جاتا لیکن مورخین کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں کہ آیا یہ قتل عام آرمینیائی باشندوں کی نسل ختم کرنے کی منظم کوشش تھی یا نہیں۔

24 اپریل کو ’آرمینین جینوسائیڈ‘ یا آرمینیائی باشندوں کی مبینہ نسل کشی کو سو سال پورے ہو رہے ہیں لیکن لاکھوں افراد کی اجتماعی ہلاکت آج بھی بین الاقوامی کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کو جھٹلایا نہیں جاتا لیکن مورخین کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں کہ آیا یہ قتل عام آرمینیائی باشندوں کی نسل ختم کرنے کی منظم کوشش تھی یا نہیں۔

سلطنت عثمانیہ، جس کا مرکز موجودہ ترکی تھا، کی افواج پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے محاظ پر چار قومی اتحاد کے تحت لڑ رہی تھیں۔

سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ انور پاشا نے عوامی طور پر اپنی فوجی شکستوں کا الزام آرمینیائی فوجیوں پر یہ کہتے ہوئے لگایا کہ وہ درپردہ روس کی حمایت کر رہے تھے اور پروپیگنڈے کے طور پر انہیں ریاست کے خلاف کام کرنے والے ’پانچویں ستون‘ کے طور پر پیش کیا۔

1915 میں حکومت کے حکم پر عثمانی فوج میں آرمینیائی نسل کے فوجیوں کو غیر متحرک کرکے انہیں ’لیبر بٹالین‘ منتقل کردیا گیا جہاں کچھ کو پھانسی دے دی گئی یا ان کی موت واقع ہو گئی۔

جب روسی قفقاز کی افواج اناطولیہ میں داخل ہو گئیں تو عثمانی حکام نے نسلی آرمینیائی باشندوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں اس خطے سے ملک بدر کرنا شروع کر دیا۔ 

اس دوران مختلف تخمینوں کے مطابق تین لاکھ سے 15 لاکھ کے درمیان آرمینیائی باشندے قتل، فاقہ کشی اور دیگر طریقوں سے مارے گئے۔

وہ کیسے مرے؟

عصر حاضر کی رپورٹس میں عثمانی ترکوں کی جانب سے آرمینیائی باشندوں کے خلاف روا رکھے گئے متعدد مظالم کی فہرست دی گئی ہے، جس میں گولی مار کر، چھرا گھونپ کر، پھانسی دے کر، زندہ جلا کر، ڈبو کر اور ادویات کی زیادتی کے ذریعے قتل عام بھی شامل ہے۔

لاکھوں آرمینیائی باشندے شام کے ریگستان میں جبری طور پر دھکیل دیے گئے جہاں وہ فاقوں یا بیماریوں سے مر گئے۔

سفر میں زندہ بچ جانے والے بہت سے افراد کو 25 کیمپوں کے نیٹ ورک میں ڈال دیا گیا جہاں بعد میں ان کی اجتماعی قبریں ملیں۔

آرمینیائی خواتین کے ریپ اور انہیں جنسی غلام بنانے کی بھی رپورٹس موجود ہیں اور ایسا مانا جاتا ہے کہ کچھ فوجی کمانڈروں نے اس طرح کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

اختلاف کس بات پر ہے؟

جدید دور میں کئی دلائل سے ان ہلاکتوں کے بارے میں ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم ترکی اس اصطلاح کو ماننے کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہلاکتیں منظم نہیں تھیں اور یہ کہ ’نسل کشی‘ کی اصطلاح دوسری عالمی جنگ کے بعد ترتیب دی گئی لہٰذا اس کا تعلق عملی طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے نسل کشی پر مبنی کنونشن نے اس طرح کی کارروائیوں کو ’مکمل طور پر یا جزوی طور‘ پر کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور 1943 میں اس اصطلاح کو متعارف والے رافیل لیمکن نے نازی ہولوکاسٹ کی اپنی تحقیقات میں آرمینیوں کے خلاف مظالم کا بھی حوالہ دیا۔ 

ترکی نے ان ہلاکتوں کو جنگ سے پیدا ہونے والے انتشار کے ایک حصے کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسیحی آرمینیوں کو ختم کرنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی تھی حالانکہ دیگر ریاستوں کا استدلال ہے کہ یہ ہلاکتیں ترکوں کی نئی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ تھیں۔

’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن جینوسائیڈ سکالرز‘ کے مطابق شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ’سلطنتِ عثمانیہ نے اپنے آرمینیائی شہریوں اور غیر مسلح عیسائی اقلیتوں کی آبادی کی منظم نسل کشی کا آغاز کیا تھا۔‘

اس گروپ نے مزید کہا: ’10 لاکھ سے زیادہ آرمینیائی باشندوں کو براہ راست قتل، بھوک، تشدد اور جبری بے دخلی اور ’ڈیتھ مارچ‘ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔‘

ان ہلاکتوں کو نسل کشی کے طور پر کون مانتا ہے؟

فرانس، اٹلی، روس اور کینیڈا سمیت 24 ممالک کی حکومتیں ان واقعات کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کرتی ہیں۔

برطانوی حکومت ایسا نہیں کرتی حالانکہ ویلز، شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی علاقائی پارلیمنٹ اور اسمبلیاں ان ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم کرتی ہیں۔

ترکی کے وزیر اعظم کی مداخلت کے باوجود جرمنی 24 اپریل کو نسل کشی کی اصطلاح استعمال کرے گا جب کہ آسٹریا رواں ہفتے ایسا کر چکا ہے۔

پوپ فرانسس نے بھی رواں ماہ کے شروع میں اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا، جس کے بعد ترکی نے ویٹیکن سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک یہ اصطلاح استعمال نہیں کی تھی، سے بھی ان واقعات کی 100 ویں سالگرہ کے قریب آنے پر اسے نسل کشی تسلیم کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔

اسے 24 اپریل کو کیوں ہی منایا جاتا ہے؟

اگرچہ آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتیں پہلی عالمی جنگ کے دوران ہوئیں لیکن 24 اپریل، 1915 کو ان کی ’نسل کشی‘ کے آغاز کی تاریخ کے طور پر منتخب کیا گیا۔

یہ وہ دن تھا جب عثمانی حکومت نے قسطنطنیہ میں 250 کے قریب آرمینیائی دانش وروں اور کمیونٹی رہنماؤں کو گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں پھانسی دے دی گئی۔

کیا کسی کو سزا بھی ہوئی؟

آرمینیائی باشندوں کے خلاف روا رکھے گئے مظالم کے تناظر میں سلطنت عثمانیہ کے متعدد سینیئر عہدے داروں کے خلاف 1919 میں ترکی میں مقدمات قائم کیے گئے لیکن تین نوجوان ترک رہنما پہلے ہی ترکی سے فرار ہو گئے تھے جنہیں ان کی غیرموجودگی میں موت کی سزا سنائی گئی۔

لیکن مورخین نے اس وقت اس عدالتی کارروائی پر سوالات اٹھائے جب ترک حکام پر اپنے فاتح اتحادیوں کو خوش کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین