نسل کشی کے بارے میں سچ بتانا ہماری ذمہ داری ہے

واقعات کی حقیقت کو مسخ کرنا ہمارے لیے سود مند ہے اور نہ ہی مستقبل کی نسل کے لیے۔

(اےایف پی)

میں نے گذشتہ ہفتے لکھا تھا کہ قتل، قتل ہوتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نسل کشی، نسل کشی نہیں ہوتی۔ بلاشبہ ترکی میں نہیں جس کے 1915 میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام میں 15 لاکھ مردوں، خواتین اور بچوں کی جانیں گئیں۔ ترکی کی حکومت اب بھی'زورو شورسے' اس کی تردید کرتی ہے کہ یہ نسل کشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔

 لیکن اب اس چھلاوے کی وجہ سے جو سنجیدہ ترین صحافت سے بھی ایک بھوت کی طرح ایسے گزرتا ہے کہ بوسنیا کے قصبے سریبرینکا میں آٹھ ہزارسے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام بھی کم تر سمجھا جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ قتل عام ہو۔ یہ نسل کشی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے لیکن رواں ہفتے خبررساں ادارے روئٹرز نے تاریخی سچ کی شاہراہ پر ایک چھوٹی سے رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ ایک جنگ جس میں ایک لاکھ لوگ مارےگئے اس کے بعد سربوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہو گئی ہے۔ روئٹرز نے سریبرینکا سے'متضاد بیانیوں'کے ساتھ رپورٹنگ کی ہے۔

 اوہ!

میں بوسنیا کی جنگ میں نہ صرف مسلمانوں اور سربوں کی تکالیف کے درمیان تھوڑا سا عدم توازن دیکھ رہا ہوں بلکہ لفط'بیانیہ'کا استعمال جسے ہم صحافی'سٹوری لائن'کہتے ہیں، سریبرینکا کے قبرستان سے جہاں قتل عام میں ہلاک ہونے والے دفن ہیں، ہزاروں مردوں اور لڑکوں کی قبروں پر یہ رپورٹ خون ریزی کے معاملے میں ایک لازمی مساوات سامنے لائی ہے۔

 کیونکہ اگر مسلمانوں اور سربوں کے درمیان'بیانیے میں تضاد'ہےتو خود بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام پرہی شبہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اس بیان پر'تنازع'موجود ہے۔

ہاں میں جانتا ہوں ہر قصے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اگر آرمینیائی 15 لاکھ مسیحیوں کے قتل کو نسل کشی کہیں جو وہ تھی، تو پھر ہمیں ان ترکوں کا ذکر کرنا ہو گا جو یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ان کے آباؤ اجداد یا ان کے بھی بڑوں نے 1915 میں گذشتہ صدی میں پہلا صنعتی قتل عام یا ہولوکاسٹ کیا تھا (اور میں آرمینائی باشندوں کے لیے ہمیشہ بڑا'ایچ'استعمال کرتا ہوں۔)

 میں ایک لمحے میں ترکوں پر واپس آ جاؤں گا لیکن جب ہمارے قصے کے'دو فریق' قاتلوں اور مقتولین کو برابر قرار دیتے ہیں یا'متضاد بیانیوں'سےکام لیتے ہیں تب ہمارے اخلاقی معیار کے ساتھ کچھ بہت ہی غلط ہو چکا ہوتا ہے۔

 ہمیں اس کا تجربہ کرنا چاہیے جیسا کہ میں نے ماضی میں 1933 سے 1945 کے دوران یہودیوں کے قتل عام پر بہت سے مضامین اورلیکچرز میں کیا ہے۔

مثال کے طورپر میں 1933 کا انتخاب کر رہا ہوں۔ چونکہ ہٹلر کا اقتدار میں آنا یورپ کے یہودیوں کی تباہی کی اولین لمحات کی علامت ہے، اس سے بہت پہلے 1941 میں نازی قاتل دستے روس پہنچ چکے تھے اور نازی ویگنوں میں گیس چیمبر اور نسل کشی کے مراکز میں گیس چیمبرز قائم کر چکے تھے۔ ایسا 1941 میں نازی قاتل دستوں کی آمد سے بہت پہلے ہوا تھا۔

یہودی ہر سال ہولوکاسٹ کو یاد کرتے ہیں۔ ہم اس یاد میں بجا طور پر شریک ہوتے ہیں۔ لیکن جو کام ہم نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ ہم ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والوں کو اپنا موقف دینے کا موقع نہیں دیتے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ 60 لاکھ یہودی کبھی قتل نہیں کیے گئے۔

 برطانوی مصنف ڈیوڈ ارونگ اور بہت سے دوسرے لوگ دھوکے سے ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہٹلر کا انسانیت کے خلاف جرم کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود کہ وہ کیا کہتے ہیں ہم ایسا نہیں کہتے کہ ہولوکاسٹ کے بارے میں'متضاد بیانیے'موجود ہیں۔ نہ ہی کبھی ہم ایسا کریں گے۔

ایسا نہیں کہ اس متوازی نظریے پر غور نہ کیا گیا ہو۔ ان سربوں کے لیے جنہوں نے اس ہفتے قریبی گاؤں براتواینس میں شرمناک طورپر'سریبرینکا کا یوم آزادی'منایا، یقیناً دائیں بازو کے ان یہودی مخالفوں سے بہت کم تھے جو آج اصرار کرتے ہیں کہ ہولوکاسٹ نہیں ہوا۔ ہم مؤخرالذکر پر کم توجہ دیتے ہیں۔ ہم انہیں نئے دور کے نازی کہتے ہیں۔ اس لیے ہم انہیں تاریخ کے خلاف جھوٹ بولنے کے کا موقع نہیں دیتے۔

 اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ سریبرینکا میں ہم'دونوں فریقوں'یعنی مارنے اور مرنے والوں کے معاملے میں اپنے پرانے رپورٹر کے توازن پیدا کرنے کے عمل کو'جائز'قرار دینے کے حق میں تھے۔

 میرا خیال ہے کہ ہم مارنے اور مرنے والوں کے معاملے میں اپنے پرانے رپورٹر کے توازن پیدا کرنے کے عمل کو'جائز'قرار دینے کے درپے تھے چاہے کوئی یہ کہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم رپورٹروں نے اپنی غیرجانبداری بھلا دی تھی اور اپنی رپورٹ میں تھوڑا سا تعصب آنے دیا۔ آخر کون فیصلہ کرے گا کہ سریبرینکا میں سربوں نے مسلمانوں کے ساتھ قصابوں والا سلوک کیا؟ اس معاملے میں ہم یہ کہنے والےکون ہوتے ہیں کہ بوسنیا کی جنگ کے بڑے متاثرین مسلمان تھے (جو سچ تھا اور ہے)؟

کیا بوسنیا کی جنگ میں سریبرینکا گاؤں کےارد گرد کے دیہات میں مسلمانوں کے ہاتھوں سربوں کے قتل عام بہت تھوڑے واقعات نہیں ہوئے؟ قتل عام کے واقعات ہوئے تھے لیکن دن رات بڑے پیمانے پر گولیوں کا نشانہ بنانے اور جولائی 1995 میں سریببرینتزا کے اردگرد مسلمانوں کی اجتماعی قبروں میں تدفین کے مقابلے میں یہ واقعات بہت چھوٹے پیمانے پر ہوئے۔

لیکن اب ہمیں ایک'متضاد'بیانیے سے لڑناہے جو ان سربوں کا ہے جو اب بھی اپنےآپ کوبوسنیا کی جنگ کے بڑے متاثرین سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں 1930 کے قتل عام کی طرف واپس جانا ہو گا جو نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی تباہی سے خاصا مختلف ہے۔

33 لاکھ کے قریب یوکرینی شہری بڑے پیمانے پرپڑنے والے ایک قحط میں ہلاک ہو گئے تھے جو سٹالن کی جانب سے زرعی فارموں کو اشتراکی سانچے میں ڈھالنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ یوکرینی اس قحط کو اپنا'ہولوڈومور'کہتے ہیں۔ سٹالن اس انسانی تباہی کی وجہ تھے۔ لیکن ہم اسے پہلے ہی'متضاد بیانیوں'کے لبادے میں چھپا چکے ہیں کیونکہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی س نے تقریباً سات برس پہلے رپورٹ کیا تھا کہ'روس کو نسل کشی کا نام دینے پر اعتراض ہے۔ وہ اسے قحط کی قوم پرستانہ تشریح کہتا ہے۔'

بی بی سی کے مطابق کریملن کے حکام کا اصرارتھا کہ ایسی صورت میں کہ ہولوڈومور'ایک سانحہ'تھا۔ اس میں'ارادے'کا عمل دخل نہیں تھا۔

 ہم قارئین کے لیے اب بھی یہی کہانی گھڑتے ہیں۔ اس لیے یہاں ایک بار پھر یہی کرنے جا رہے ہیں۔ آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی میں ترک اس حد تک نہیں گئے سوائے اس کے کہ ترکی میں اس کے الٹ بات کرنے پر جیل جا سکتے ہیں۔ انہوں نے 1915 میں'نقل مکانی'کے دوران آرمینیائی باشندوں کی ہلاکت کے'سانحے'کا اعتراف کیا ہے لیکن انہیں بطور لوگ تباہ کرنے کے ارادے کی تردید کی ہے اور مرنے والوں کی تعداد پر سوال اٹھایا ہے۔

بلاشبہ اعداد و شمار کے بارے میں سوال کرنا یہودی ہولوکاسٹ کا انکار کرنے تمام اقسام کے لوگوں کے لیے نقطہ آغاز ہے۔

عجیب بات ہے کہ اخبارات اور خبررساں ادارے تقریباً ہمیشہ اس'متضاد بیانیے'کے سامنے جھکتے رہے ہیں جو ترکوں نے تیار کیا جو یہ بھی کہتے ہی کہ بچ جانے والے آرمینیائی باشندوں نے اپنے تجربات کے بارے میں جھوٹ بولا۔ انہوں نے کہا کہ ترک حکومت کو آرمینیائی باشندوں کے'دعوے'پر'شدید اعتراض'ہے یا وہ اس دعوے کی'سختی سے تردید'کرتے ہیں۔

(ترکوں کے غصے کے لیے) 'شدید'کے لفظ کا استعمال اکثر آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی سے متعلق میری دستاویزات میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ بہت زیادہ استعمال ہونے والے ان پرانے لفظوں میں سےایک ہے جو مخصوص موضوعات پر اخباری رپورٹنگ سے جڑ گیا ہے (جیسا کہ سیاستدان'انتخاب کے راستے پر'یا سیاسی زندگی کے لیے لڑائی')۔

لیکن یہ محض ایک بہت زیادہ بولے جانے والے لفظ سے بڑھ کر ہے۔ کیا'شدید'کا لفظ شاید یہ ظاہر کرتا ہے کہ ترکی کی تردید زیادہ معقول ہے اور یہ کہ نسل کشی کو تسلیم کرنے سے'پرزور'انکارمحض بذات خود تردید کے زیادہ حقیقی ہے؟

اس کے لیے میں کہتا ہوں کہ لفظ'تردید'کا تمام اقسام کا صحافتی استعمال نسل کشی کے آرمینیائی'دعوے'کے ایک حوالے کے بعد کیا گیا ہے۔

یوں 1915 میں جو کچھ ہوا اس کی حقیقت کم ہو کر کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے تاہم نسل کشی کی تاریخی اعتبار سے تصدیق اور تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ایک دعویٰ صرف اتنا ہی ہے کہ حقیقت نہیں بلکہ ایک الزام ہے۔

 ترکوں کے لیے اس معاملے کا زیادہ تر حصہ ایک درست لیکن بالکل غیرمتعلقہ حقیقت کے گرد گھومتا ہے کہ'نسل کشی'کا لفظ پولینڈ کے یہودی وکیل رافیئل لمکن نے 1940 کی دہائی کے آغازتک ایجاد نہیں کیا تھا۔ ترک پوچھتے ہیں کہ وہ کس طرح ایک ایسے جرم میں ملوث ہو سکتے ہیں جس کا 1915 میں کوئی نام بھی نہیں تھا؟ لیکن سوویت یونین والوں کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے یوکرینی شہریوں کو'قحط'میں مبتلا کیا اور یہ واقعہ بھی لمکن کی جانب سے ان کے نسل کشی کنونشن تیار کرنے سے پہلے کا ہے۔

اس کے باوجود جنگ کے بعد کے برسوں میں خود لمکن نے جنہوں نے آرمینیائی باشندوں کے حالات کے بارے میں پڑھ کر لفظ تخلیق کیا، یوکرین کے قحط کو سرعام'نسل کشی'کہا۔ اس معاملے میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ لمکن کی جانب سے زلزلہ خیز لفظ'نسل کشی'تخلیق کرنے سے پہلےشروع ہوا۔ لیکن رحم کرتے ہوئے کسی نے یہ نہیں کہاکہ یورپ کے یہودیوں نے نسل کشی کا سامنا نہیں کیا حالانکہ یہ لمکن کی جانب سے نام دیے جانے سے پہلے شروع ہو گئی تھی۔ بلاشبہ یہ دلیل ہی بذات خود احمقانہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 حتیٰ کہ'پہلی عالمی جنگ'کا لفظ جس کا حوالہ ہر ترک مرد یا خاتون ترک جزیرہ نما گلی پولی کی لڑائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیتے ہیں اس کا 1914 سے 1918 کے دوران یا اس کے طویل عرصے بعد تک وجود ہی نہیں تھا کیونکہ دوسری عالمی جنگ 1939 میں ہی شروع ہوئی تھی۔

مستقبل کے مؤرخین کے بارے میں خیال ہے کہ وہ سلطنت روم کا ظلم صرف اس لیے دھو دیں گے کہ کسی کے عالمی انسانی حقوق کے نظریے کا خواب دیکھنے سے بہت عرصہ پہلے مصلوب کرنے کا رواج رہا تھا۔

 میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم صحافی جان بوجھ کر نسل کشی کے جرم کو نرم بنا رہے ہیں اگرچہ ایسا ہی ہے۔ مجھے 'متضاد بیانیوں'کے اثرات کا ڈر ہے۔ مجھے'بڑے پیمانے پر خونریزی'اور'ذبح کرنے'اور'قتل عام'اور'انسانیت کے خلاف جرائم'اور'نسل کشی'کے درمیان فرق پر ہمیشہ سے پریشانی رہی ہے۔

 کتنی لاشیں ہوں تو قتل عام کہا جائے گا؟ مثال کے طور پرقتل عام ظلم کب بن جاتا ہے؟ لیکن نسل کشی کی تردید کے سے نمٹنے کا کوئی زیادہ اخلاقی طریقہ ہونا چاہیے۔

شاید ہمیں'متضاد بیانیے'پر ہمیشہ احساس گناہ سے بچنے کی کوشش کی جھنڈی لگانی چاہیے یا شاید جرم پر ایک اخلاقی مؤقف ہی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیسا ہے۔ انکارکرنے والے سچ بتانے سے انکار کررہے ہیں۔ بڑے پیمانے پرقتل عام، بڑے پیمانے قتل اور بڑے پیمانے پر قتل عام ہی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر