کھجور: پاکستان کا وہ پھل جس سے فائدہ کم اٹھایا گیا

ملک کا یہ تیسرا بڑا پھل اور بلوچستان کی ایک بہت بڑی پیداوار آنے والے وقتوں میں پاکستان کو چھٹے نمبر سے پہلے نمبر پر لاکھڑا کرسکتی ہے۔

 (تصویر: عزیز جمالی) بلوچی میں اس پھل کو ’ہورماگ‘ اور اس کے درخت کو ’مچھ‘ کہتے ہیں

بلوچستان کھجور کے درخت اور اس کے ذکر کے بغیر ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔ صوبے کے وہ تمام علاقے جہاں بارشیں اور پانی کے ذخائر کم ہوں وہاں کاشت کاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ایسے میں صوبے کا انحصار زیادہ تر موسمی فصلوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ملک کی 40 سے 50 فیصد کھجور بلوچستان کے مکران ڈویژن سے حاصل کی جاتی ہے۔

بلوچی میں اس پھل کو ’ہورماگ‘ اور اس کے درخت کو ’مچھ‘ کہتے ہیں۔ تربت اور پنجگور پاکستان میں کھجور کی پیداوار میں کوالٹی میں سب سے بہترین مانے جاتے ہیں۔

تربت کی ’بیگم جنگی‘ ہو یا پنجگورکا ’موزاوتی‘ پاکستان بھر میں تو کیا دنیا بھر میں منفرد اور غذائیت سے بھرپور ہیں۔ شہاب الدین بلوچ نے جو ریسرچ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، بتایا کہ چند سال قبل چین میں منعقد کی گئی ایک زرعی نمائش میں دنیا بھر سے 21 ممالک نے شرکت کی، ان ممالک میں وہ خلیجی ممالک بھی شامل تھے جو کھجور کی پیداوار کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس نمائش میں بلوچستان کے شہر پنجگور کی مشہور قسم ’موزاوتی‘، جیسے ’کھجوروں کا بادشاہ‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بھی پیش کی گئی۔ نمائش میں دوسری کوئی کھجور پنجگور کی اس قسم کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ موزاتی کے فوائد عام کھجوروں سے کئی گناہ زیادہ ثابت ہوئے۔

کھجور ایک تاریخی پھل ہے جو کہ زمانہ قدیمی سے خوراک کے لیے کاشت کیا جاتا ہے۔ ہزاروں سال قدیم مشرقی وسطیٰ کی تاریخ ہو، مہر گڑھ ہو یا موہن جودڑو، کھجور کی کاشت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ تقریباً دنیا کے اکثر مذاہب میں اس پھل کا ذکر ہے۔ بائبل میں تقریباً 50 جگہوں پر اور اس طرح قرآن مجید میں 22 مرتبہ اس کا ذکر موجود ہے۔

کھجور کے پتے مشرق وسطیٰ اور اس کی تاریخ میں بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانہ مصر اور میسوپوٹیمیا میں کھجوروں کی ذرخیزی کا ذکر ہے۔ غذائی اعتبار سے بھی اس پھل کی اہمیت اسے کسی بھی دوسرے پھل سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ کیلشیئم، آئرن، پوٹاشیئم، کاربوہائیڈریٹ تو چند مخصوص خصوصیات ہیں۔

روایتی طریقہ علاج سے لے کر ایلوپیتھک ڈاکٹرز تک اسے قوت مدافعت مضبوط کرنے کا ایک اہم ذریعہ قراردیتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق کسی اور غذا کی عدم موجودگی میں صرف کھجوریں کھا کر بھی کافے عرصے تک توانائی حاصل کی جاتی ہے۔

1۔ کھجور کے بیج اور پتے بھی کارآمد

ماما فیضو کا تعلق (واشک) بلوچستان سے ہے، جو قہوے کا پیالہ ہاتھ میں لیے ’کھاروبا‘ نامی مقامی خشک کھجور سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کھجور کے خشک پتوں سے زمانہ قدیم سے ان کے ہاں مختلف گھریلو اشیا بنائی جاتی ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ یہ محض ثقافت کا حصہ ہیں یا غربت اس کی وجہ ہے، لیکن آج بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں یہ اشیا استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں جھاڑو، ٹوکری، تاگرد (چٹائی)، تیج (روٹی کھانوں کی ٹوکری)، چیک (بنی ہوئی رسی) وغیرہ شامل ہیں۔

مقامی سطح پر لوگ ان کھجوورں کے بیج بھگو کر انہیں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عموماً بلوچستان کے ان علاقوں میں بکریاں وافر تعداد میں موجود ہوتی ہیں جہاں اس کے بیج کو چارے کے طور پر بھی استعمال کیاجاتا ہے جبکہ یہی بیج دوبارہ کاشت کے لیے خشک کر کے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

کھجور پاکستان کی تیسری بڑی فصل ہے۔ بلوچستان کے علاوہ یہ دیگر صوبوں سندھ میں سکھر، خیرپور، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور کے پی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔

کھجور کی اس صنعت کی حفاظت یا اسے بہتر بنانے کے لیے حکومتی اقدامات انتہائی غیرسنجیدہ ہیں۔ مسلم ممالک کے علاوہ اس پھل کی کھپت پوری دنیا میں موجود ہے جس طرح گندم اور گنے کی پیداوار کے لیے دیہی علاقوں کو ترجیح اور مراعات سے اس کی پیداوار کے اضافے کے ساتھ اب اسے دنیا بھر میں آسانی سے برآمد کیا جاتا ہے، اسی طرح حکومت پاکستان اگر اس صنعت پر توجہ دے تو اس کی کاشت مزید فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

2۔ بلوچستان میں کھجور کی فصل کو درپیش مسائل

کولڈ سٹوریج کا نہ ہونا اس صنعت کو مختلف مسائل سے دوچار کرتا ہے۔ سخت صحرائی علاقے میں پیدا ہونے والا یہ پھل پروسینگ سے پہلے کولڈ سٹوریج میں رکھا جاتا ہے۔ بلوچستان میں صرف ایک کولڈ سٹوریج حکومتی سطح پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں تربت شہر میں قائم کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صغیر بلوچ کا تعلق پنجگور سے ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک کاشت کار ہیں اور پنجگور ٹریڈز ایسوسی ایشن کے صدر بھی۔ صغیر کے مطابق: ’کھجور کے کاشت کاروں کو معیاری تربیت اور بنیادی تعلیم کی کمی کی وجہ سے اچھی فصلیں ہونے کے باوجود وہ فوائد حاصل نہیں کرسکیں جو انہیں حاصل کرنے چاہییں۔ پڑوسی ملک ایران میں بھی کھجور کی کاشت ہوتی ہے لیکن وہاں ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کاشت کاروں کو دی گئی سہولیات کے ثمرات اس کاروبار میں واضح نظر آتے ہیں۔‘

صغیر بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ جدید طرز کے کولڈ سٹوریج حکومتی سطح پر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں تاکہ کاشت کار فصل لگاتے ہوئے زیادہ پراعتماد ہو۔

کرونا کے سبب پچھلے دو سالوں میں بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے ٹریڈز اور کاشت کاروں کو اس سلسلے میں کافی نقصان اٹھانا پڑا لیکن آج بھی کھجور کی طلب بہت زیادہ ہے اور مقامی کاشت کار یہ چاہتا ہے کہ اس کی اس کاشت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مارکیٹوں کی رسائی کو اور بھی آسان کیا جائے۔ رجب، شعبان اور پھر رمضان یہ وہ مہینے ہیں جب اس فصل کی مانگ اور بڑھ جاتی ہے۔

اس فصل کو زیادہ پانی درکار نہیں ہوتا لیکن بلوچستان میں پانی کی کمی اور کاریز سسٹم، جو کہ یہاں کا ایک پرانا طریقہ آب پاشی ہے، بھی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پنجگور میں150 کے قریب کاریز میں اب بمشکل 10 یا15 قابل استعمال ہیں۔

مقامی کاشتکار اپنی مدد آپ کے تحت زیرزمین پانی کا استعمال کر رہے ہیں جو کہ آنے والے وقتوں میں مزید مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ ایک مقامی تاجر کے مطابق آنے والا موسم مون سون کا ہے اور شدید بارش کی صورت میں ان فصلوں میں لگے ہوئے پھلوں کو نقصان ہوتا ہے۔ ’ہمارے قریبی سرحدی علاقوں میں بھی اسی فصل کی کاشت کی جاتی ہے۔ وہاں ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ نے درختوں کے پھل کو بارشوں اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے نہ صرف نیٹ (جالی) تقسیم کرکے عام کاشت کاروں کو اس کی افادیت سے آگاہ کیا اور یہ سارا کام حکومت نے اپنی زیرنگرانی میں کروایا ہے۔‘

ملک کا یہ تیسرا بڑا پھل اور بلوچستان کی ایک بہت بڑی پیداوار آنے والے وقتوں میں پاکستان کو چھٹے نمبر سے پہلے نمبر پر لاکھڑا کرسکتی ہے، اگر حکومت وقت مناسب تربیت، پیکیجنگ زونز، کولڈ سٹوریج اور مقامی کاشت کاری و عالمی منڈی تک مکمل رسائی سے متعلق فوری اقدامات لے۔ اس سے نہ صرف صوبے میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زرمبادلہ میں بھی واضح تبدیلی نظر آئے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ