12 مئی سانحہ کراچی: '14 سال گزرنے کے باوجود انصاف نہ مل سکا' 

’12 مئی کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس اسلحے کے بجائے، لاٹھیاں تھیں، جبکہ دہشت گرد جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ چیف جسٹس دوبارہ بحال ہونے کے بعد بھی انصاف نہ دلا سکے، جس کا افسوس ہے۔‘

بارہ مئی 2007 ، کراچی میں ہنگاموں کے دوران مظاہرین کی گاڑی الٹانے کی کوشش(فائل فوٹو: اے ایف  پی)

’میرے چچا سعید احمد اس دن قانون کی بالادستی کے لیے نکالے گئے جلوس میں شرکت کررہے تھے، مگر ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، وہ ہلاک ہوگئے اور ان کے ساتھ موجود چار اور لوگ شدید زخمی ہوگئے۔‘

’ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ 12 مئی 2007 کو میرے چچا سمیت 50 سے زائد ہلاک ہونے والے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔‘ 

حنیف ذاکر 12 مئی 2007 کو ہلاک ہونے والے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے فنانس سیکرٹری سعید احمد کے بھتیجے ہیں۔

ان کے مطابق اس دن ان کے چچا عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سندھ کے صدر شاہی سید کی گاڑی میں کے ساتھ بیٹھے تھے، مگر بعد میں شاہی سید سیاسی رہنماؤں کے لیے مختص گاڑی میں بیٹھ گئے۔ 

’میرے چچا کے ساتھ چار لوگ بیٹھے تھے۔ گاڑی جب شاہراہ فیصل پر بلوچ پُل پہ پہنچی تو پُل کی طرف سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ اس واقعے کا کیس یا تو چلا ہی نہیں یا پھر کیس میں فرضی کہانیاں بنائی گئیں۔ اس وقت وزیر داخلہ سندھ اور وفاقی وزیر داخلہ اور کراچی کے مئیر کو نامزد کیا گیا مگر بعد میں کچھ بھی نہیں ہوا۔‘ 

حنیف ذاکر کے مطابق: ’12 مئی کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس اسلحے کے بجائے، لاٹھیاں تھیں، جبکہ دہشت گرد جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ چیف جسٹس دوبارہ بحال ہونے کے بعد بھی انصاف نہ دلا سکے، جس کا افسوس ہے۔‘

12 مئی کو کیا ہوا تھا؟  

مارچ 2007 میں اس وقت کے آمر حکمران پرویز مشرف کی حکومت نے اس وقت کے چیف آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کو استعفیٰ دینے کو کہا اور انکار پر ان کو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا جس پر پاکستان کے وکلا نے تحریک شروع کی، جس کے دوران غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملک کے کئی شہروں کا دورہ کرکے جلسے کیے۔

12 مئی 2007 کو افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی آرہے تھے۔ جس کے شہر میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوئی۔  

 وکلا اور سیاسی کارکنوں سمیت سمیت 48 افراد شہر کی سڑکوں پر دن دہاڑے ہلاک کردیے گئے، 130 سے زائد افراد زخمی جبکہ درجنوں گاڑیاں اور املاک بھی نذر آتش کردی گئیں۔ 

اس وقعے کے سات سے زائد مقدمات درج ہوئے جن میں اُس وقت کے مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر اور رکن سندھ اسمبلی کامران فاروق سمیت 55 سے زائد ملزمان نامزد کیے گئے۔ کئی بار کیس چلا، مگر 14 سال گزرنے کے باوجود آج تک فائنل فیصلہ نہ ہوسکا۔ 

فیصلہ تو دور کی بات آج تک اس بات کا بھی تعین نہیں ہوسکا کہ اس دن ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی تھی۔ کچھ اخبارات کے مطابق اس دن 40 افراد، کچھ کے مطابق 50 اور کچھ 70 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا۔  

 12 مئی واقعات پر ردعمل  

 عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سندھ کے صدر شاہی سید نے کہا کہ 12 مئی کے واقعے کو 14 سال گزرنے کے باجود متاثرین آج تک انصاف کے انتظار میں ہیں اور اس واقعے کے ذمہ دار لوگ آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شاہی سید نے کہا: ’اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کسی کا احتساب بھی انتقام کے لیے کیا جاتا ہے اور انصاف بھی انتقام کے لیے دیا جاتا ہے۔ 12 مئی واقعے کے چشم دید گواہ پاکستان کے نشریاتی ادارے، حکومت وقت، جج اور وکلا تھے، مگر اس کے باوجود اس واقعے کا کوئی انصاف نہیں کیا گیا۔ 12 مئی کو ہر زبان بولنے والے اور ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہلاک ہوئے تھے۔‘ 

’جب میں نے 12 مئی سانحے پر عدالت میں کیس کیا تو وہاں کوئی جج بھی نہیں آیا اور عدالت کے باہر آٹھ، دس ہزار لوگ جمع ہوگئے کہ کیسے کیس چلتا ہے۔ ایسے میں انصاف کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔‘

شاہی سید کے مطابق ’جب چیف جسٹس افتخار چودھری دوبارہ بحال ہوئے تو انھوں نے کہا کہ انھیں صدر والا پروٹوکول کیوں نہیں دیا جاتا؟ مگر چیف جسٹس نے کبھی بھی 12 مئی کیس نہیں کھولا، جس کا ہمیشہ دکھ رہے گا۔‘

دوسری جانب بدھ کو بلاول ہاؤس کراچی سے جاری ایک بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سانحہ 12 مئی ملکی تاریخ کا ایک بدترین تاریک واقعہ ہے، جسے بھولنا مشکل ہے۔  

’اس کرب کو سمجھتا ہوں، جس سے متاثرہ خاندان گذشتہ 14 سالوں کے دوران گزر رہے ہیں۔ آج یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کہاں پہنچی؟، کیا آج ایک غریب پاکستانی کو عدالتوں سے بلامتیاز و بلاتاخیر انصاف مل رہا ہے؟، کیا نظریہ ضرورت کی بدروح ہمارے نظامِ انصاف میں تاحال سرگرداں تو نہیں؟ اور سانحہ 12 مئی پر فتح کے مُکے لہرانے والے کیونکر قانون کی گرفت سے آزاد ہیں؟۔‘

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ جمہوریت اور تاریخ نے سانحہ 12 مئی میں ملوث شر پسند عناصر سے بدلہ لے لیا ہے۔ پیپلز پارٹی سانحہ 12 مئی کے شہداء کی قربانیاں رائیگان جانے نہیں دے گی۔ جب تک سانحہ 12 مئی کے شہدا کو انصاف نہیں ملتا، عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول بھٹو زرداری کے مطابق: ’پیپلز پارٹی حکومت میں آکر نظام انصاف میں موجود عوام دشمن پیچیدگیوں کا خاتمہ کرے گی۔ پیپلز پارٹی یہ یقینی بنائے گی کہ قائدِ اعظم کے قائم کردہ اس ملک میں آئندہ کبھی کوئی سانحہ 12 مئی نہ ہو۔‘ 

کراچی کے صحافی قاضی آصف اُن بہت سے صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں میں ایک ہیں جو 12 مئی 2007 کے سانحے کے عینی شاہد ہیں۔ قاضی آصف کو 12 مئی 2007 کو ان کی اخبار انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز کی جانب سے اسائنمٹ دیا گیا تھا کہ وہ ڈرگ روڈ سے صدر کے درمیان والے علاقے کے حالات کے علاوہ کالعدم ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین کا بندر روڈ پر ہونے والے خطاب کو کور کرنا تھا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے 14 سال گزرنے کے باجود قاضی آصف کا لہجہ جذباتی تھا۔ ان کے مطابق: ’کراچی کے ہوائی اڈے جانے کے لیے میں جیسے ڈرگ روڈ پر پہنچا تو وہاں موجود سیاسی پارٹی کے کارکنوں نے تعارف کرانے کے باجود آگے جانے نہیں دیا۔ ان کا انداز جارہانہ تھا اور اگر ہم تھوڑا اور بحث کرتے تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اس لیے ہم واپس روانہ ہوئے۔‘  

'شاہراہ فیصل سے ملنے والی ہر سڑک اور ہر گلی کو ٹرک کھڑا کرکے بند کردیا گیا تھا اور ان ٹرکوں کے ٹائروں سے ہوا نکال دی گئی تھی۔ ہر جگہ پر موجود لوگوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا اور کسی کے لیے کوئی رحم نہیں تھا۔ کہیں بھی رینجرز، پولیس یا کوئی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار نظر نہیں آئے۔شہر میں جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے بند کردیے گئے تھے۔ وہ دن ایک خوفناک یاد کی طرح ہے۔‘

دوسری جانب سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا سے رابطہ کیا گیا تو ان کے مطابق ’12 مئی کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے تو اس میں سندھ حکومت کیا کرسکتی ہے۔ شکاگو میں تو صرف دو مزدور ہلاک ہوئے تھے، اس کو آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ مگر 12 مئی تو 150 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے، مگر اس پر انصاف نہیں کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان