بے روزگاری کا عفریت

موجودہ نظام تعلیم کچھ حد تک پڑھے لکھے نوجوان تو پیدا کر رہا ہے مگر ایک بڑی اکثریت کو وہ تعلیم مل رہی ہے جس کی شاید ان سب کو ضرورت نہیں ہے۔

   کراچی  میں روزگار کی تلاش میں سڑک کنارے بیٹھے مزدود۔ تقریبا ہر شہر میں اس طرح کی قطاروں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے (اے ایف پی فائل)

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں کلک کرنے سے سن بھی سکتے ہیں


پاکستان میں روزگار کا حال کچھ اچھا نہیں۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے بےروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ چند برس بھی کچھ اچھے نہیں رہے۔ آنے والے دنوں کے بارے میں پیش گوئی کوئی اچھی نہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2021 میں بےروزگاری کی شرح ڈیڑھ فیصد رہے گی جس کی ملکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

ورلڈ بنک کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالوں میں بےروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس خوفناک اضافے کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر پچھلے دو سالوں میں شرح نمو میں خطرناک حد تک کمی نے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے روزگار کے مواقع ختم کر دیئے۔

پچھلے 67 سالوں میں پہلی دفعہ شرح نمو میں منفی اضافہ ہوا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور تنزلی میں مزید اضافہ کرونا وبا سے بھی ہوا ہے جس سے شرح نمو میں اس سال صرف ایک فیصد اضافے کی توقع ہے۔ ان دگردوں معاشی حالات میں بے روزگاری کے اعداد  میں کوئی بڑی کمی آنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال پاکستان میں بے روزگار لوگوں کی تعداد تقریبا 70 لاکھ سے بھی زیادہ ہوگی۔ اس میں سب سے بڑی تعداد، تقریبا 12 فیصد، 20 سے 24 سال کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔ اس تعداد میں 2030 تک مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ اس وقت ہماری تقریبا 63 فیصد آبادی اس عمر کے گروپ میں شامل ہو گی۔

حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اس کے پانچ سالہ دور حکومت میں تقریبا ایک کروڑ نوکریوں کا انتظام کیا جائے گا۔ لیکن ان کی حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے سے موجود نوکریوں میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے یہ تقریبا ناممکن نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے اس انتخابی وعدے پر باقی ماندہ مدت اقتدار میں کسی طرح بھی عمل درآمد کر سکے گی۔ اگر یہ 2018 کے روزگار کے اعدادوشمار بھی برقرار رکھ پائی تو یہ حکومت کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔

روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو۔

اس استحکام کو دیکھتے ہوئے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ سیاسی استحکام کے علاوہ ملک میں ہنر مند افرادی قوت کی موجودگی بھی سرمایہ کاروں کے لیے ایک موثر ترغیب کا کام دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان دونوں شعبوں میں میں پچھلی دہائیوں میں واضح کمی نظر آئی ہے۔

حکمراں جماعت نے پہلے دن سے پاکستان کو ایک خودساختہ سیاسی بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ اس حکومت کی سیاسی انتقام پر مبنی پالیسیوں سے ایسا لگتا ہے جیسے عوام نے انہیں بہتر مستقبل، خوشحالی، بدعنوانی کا خاتمہ، روزگار اور رہائشی سہولتوں میں اضافے کی بجائے اپنے مخالفین سے انتقام لینے کے لیے ووٹ دیا۔ حکومت کی ترجیحات میں معاشی بہتری کی بجائے اپنے مخالفین کو نت نئے طریقوں سے پابند سلاسل رکھنا مقصود لگتا ہے۔ اور شاید اپنے اسی انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے عید کی چھٹی کے دن بھی وفاقی کابینہ کے ذریعے ایک سیاسی مخالف کو ای سی ایل میں رکھنے کے لیے تگ و دو کی جاتی رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سیاسی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت معاشی ترقی کے پروگراموں پر توجہ دے اور قانون کے اداروں کو اپنا کام اپنے مروجہ قانونی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق کرنے دے۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان اداروں کو اتنا مضبوط کرے کہ وہ حکومت کی دخل اندازی کے بغیر اپنے کام کر سکیں اور بدعنوان لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم ملکی قوانین کے مطابق حاصل کر سکیں نہ کہ حکومت کی غلط اور من گھڑت اطلاعات کی مہم کا حصہ بن کر اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اور انہیں مزید کمزور کریں۔

ان قانونی اداروں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دینے سے نہ صرف ملک میں سیاسی استحکام آئے گا بلکہ سرمایہ کاروں کا ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کے بارے میں اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔

حکومت کو عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے پر توجہ دی جائے اور اس میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔ ہمیں تعلیم کے شعبے میں بنیادی جراحی کی ضرورت ہے۔

موجودہ نظام تعلیم کچھ حد تک پڑھے لکھے نوجوان تو پیدا کر رہا ہے مگر ایک بڑی اکثریت کو وہ تعلیم مل رہی ہے جس کی شاید ان سب کو ضرورت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں ہنرمند نوجوانوں کی کمی ہے اور زیادہ تر نوجوان حکومتی نوکریوں کے منتظر ہوتے ہیں۔ اگر تعلیم کا نظام نوجوانوں میں خاص ہنر پیدا کرنے میں کامیاب ہو تو شاید ان نوجوانوں کو حکومتی ملازمت یا کسی فیکٹری میں مزدوری کی بجائے اپنا کام شروع کرنے کی ترغیب ہوگی۔

دیہات میں کام کے کم مواقع نوجوانوں کو شہروں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ بے ہنر نوجوان ان شہروں میں بے روزگار لوگوں کی تعداد میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دیہات سے اس نقل مکانی کو روکا جائے۔ یہ اسی وقت رک سکتی ہے اگر ہماری زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنجر علاقوں کو بھی قابل کاشت بنایا جائے۔ اس سے نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ بے روزگاری اور غربت میں بھی واضح کمی آئے گی۔

بیروزگاری پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافے کو بھی روکا جائے۔ ہمارے ہاں ہر آٹھ سیکنڈز کے بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے اور اس رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی موجودہ 22 کروڑ سے اگلے 50 سالوں میں بڑھ کر 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔

ترقی کی سمت دیکھتے ہوئے آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ آبادی کے بڑھنے کی موجودہ رفتار اور روزگار کے سکڑتے ہوئے مواقع اس ملک کو ایک سنگین سماجی مشکل سے دوچار کر سکتے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ